اینمل فارم! پون چکی کا منصوبہ


کلوور کے دماغ میں ایک خیال کا کوندا لپکا۔ دوسروں سے کچھ بھی کہے بغیر، وہ مولی کے تھان کو گئی اوراپنے کھر سے پیال الٹی۔ پیال کے نیچے، شکر کی بھیلیوں کی ایک ڈھیری اور گڈا کے گڈا، مختلف رنگ کے موباف چھپے ہوئے تھے۔

تین روز بعد مولی غائب ہوگئی۔ کچھ ہفتوں تک، کسی کو اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا، تب کچھ کبوترو ں نے خبر دی کہ انہو ں نے اسے ڈھپئی کے دوسری طرف دیکھا ہے۔ وہ ایک سرخ اور سیاہ رنگی، ٹم ٹم نما منی سی گھوڑا گاڑی میں جتی ہوئی تھی جو ایک شراب خانے کے باہر کھڑی تھی۔ ایک موٹا، سر خ چہرے والاآدمی جو کلال لگ رہا تھا، ڈبیوں والی برجیس اور چمڑے کے لمبے بوٹ ڈانٹے، اس کی تھوتھنی سہلا رہاتھا اور اسے شکر کی بھیلیا ں کھلا رہا تھا۔ اس کی تازہ تازہ حجامت بنی ہوئی تھی اور ایال میں چہچہاتے سرخ رنگ کا موباف گوندھا ہوا تھا۔ وہ مزے میں تھی، ایسا کبوتروں نے کہا۔ کسی بھی جانور نے دوبارہ مولی کا تذکرہ نہیں کیا۔

جنوری میں بڑی سخت ٹھنڈ آگئی۔ زمین پتھر ہو گئی اور کھیتوں میں کوئی کام نہ کیا جا سکتا تھا۔ بڑے گودام میں کئی اجلاس ہوئے اور سؤر آنے والے موسم کے کاموں کے لئے منصوبہ سازی میں منہمک رہے۔ یہ مان لیا گیا کہ سؤر، جو کہ واضح طور پہ دیگر جانوروں سے زیادہ سیانے تھے باڑے کی حکمت عملی کے سب معاملات نمٹائیں گے، گو ان کے فیصلوں کی توثیق، عام رائے شماری سے کی جائے گی۔ یہ اہتمام بھلا چنگا چلتا اگر نپولین اور سنو بال کے درمیان جھگڑے نہ اٹھ کھڑے ہوتے وہ دونوں ہر اس نکتے پہ غیر متفق تھے جس پہ اختلاف ممکن تھا۔

اگر ان میں سے ایک زیادہ کلوں میں جو بیجنے کی تجویز دیتا تو دوسرا جئی کی زیادہ بجائی پہ لازمی زور دیتا، اور اگر ان میں سے ایک کہتا کہ فلاں فلاں کھیت گوبھی کی کاشت کے لئے موزوں ہیں تو دوسرا اعلان کرتا کہ یہ شلجم کی کاشت کے علاوہ کسی کام کے نہیں۔ ہر ایک کے اپنے مداح تھے، اور کچھ بڑے زور دار مباحثے ہوئے۔ جلسوں میں سنو بال اپنی عمدہ تقریروں سے اکثریت جیتنے میں کامیاب ہو جاتا، لیکن نپولین اپنے لئے حمایتی اکٹھے کرنے کی مہم چلانے میں چست تھا۔

اسے بھیڑوں میں خاص طور پہ کامیابی ملتی تھی۔ بھیڑیں ابھی کچھ دنوں سے ’چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں گندی ہیں‘ ممیانے میں نہ صبح دیکھتی تھیں نہ شام اور اکثر جلسوں کے درمیان بھی بول پڑتی تھیں۔ یہ محسوس کیا گیا کہ وہ سنو بال کی تقریروں کے اہم مقامات پہ ’چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں گندی ہیں‘ ممیا کے خلل ڈالنے کی ذمہ دار تھیں۔ سنو بال نے ’زراعت نامہ اور افزائشِ حیوانات‘ کے کچھ پرانے پرچوں کا بغور مطالعہ کیا تھا جو اسے رہائشی عمارتوں میں ملے تھے اور اس کا ذہن، اصلاحات اور جدید خیالات سے بھرا ہوا تھا۔

وہ پانی کے کھالوں، ذخیرہ شدہ چارے، اور کیمیائی کھادوں کے بارے میں عالمانہ انداز میں بولتا تھا اور تمام جانوروں کے لئے، ایک پیچیدہ منصوبہ بنائے بیٹھا تھا جس میں انہیں براہ راست کھیتوں میں، روز، مختلف مقام پہ لید کر واکے ڈھوائی کی مشقت بچائی جاسکتی تھی۔ نپولین نے اپنا ذاتی کوئی منصوبہ نہ بنایا مگر چپکے چپکے کہتا کہ سنو بال کے منصوبوں سے کچھ نہیں ملے گا وہ صرف اپنا وقت کاٹ رہا ہے۔ مگر ان کی تمام چپقلشوں میں سے کوئی بھی ایسی بری نہ تھی جیسی کہ وہ تھی جو پون چکی پہ چلی۔

بڑی چراگاہ میں، رہائشی عمارتوں سے ذرا ہی دور ایک ڈھکی سی تھی اور یہ باڑے کا سب سے اونچا مقام تھی۔ زمین کا معائنہ کرنے کے بعد، سنو بال نے اعلان کیا کہ یہ پون چکی کے لئے بہترین مقام ہے، جسے بناکے، ڈائنمو چلا کے فارم کو برقی توانائی فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس سے تھانوں پہ بتی لگ جائے گی اور سردی میں گرمائش کا انتظام کیا جا سکے گا، اور ایک آرا، ایک ٹوکہ، ایک برقی دات اور ایک دودھ دوہنے کی مشین بھی چلا ئی جا سکے گی۔

جانوروں نے اس قسم کی کسی شے کے بارے میں پہلے کبھی نہ سنا تھا ( کیونکہ فارم ایک پرانی طرزکا مزرعہ تھا اور یہاں بہت ہی بنیادی قسم کی مشینیں تھیں ) اور وہ حیرت میں سنا کیے جبکہ سنو بال ساحرانہ انداز میں تصوراتی مشینوں کی تصویر کھینچتا رہا جو ان کے لئے ان کا کام کریں گی جبکہ وہ مزے سے کھیتوں میں چریں گے یا مطالعے اورتبادلۂ خیال سے اپنے ذہن کو جلا بخشیں گے۔

چند ہی ہفتوں میں سنو بال کی پون چکی کے نقشے بن بنا بھی گئے۔ ان کی میکانیکی تفصیلات، جانی صاحب کی تین کتابوں سے ملیں۔ ’ہزار کام جو ایک گھر کے لئے کیے جا سکتے ہیں‘ ، ’ہر شخص راج گیری کر سکتا ہے‘ ، ’نو آموزوں کے لئے بجلی کا کام‘ ۔ سنو بال نے ایک ایسے چھپر کو اپنے کام کے کمرے کے لئے چنا جو کبھی انڈے سینے کے ڈبے رکھنے کے کام آتا تھا اور اس کا ہموار چوبی فرش تھا جس پہ نقشے بنائے جا سکتے تھے۔ سنو بال وہاں گھنٹوں بند رہتا۔

اس کی کتابوں کے ورق، پتھر تلے دبے کھلے ہوتے اور وہ کھریا مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے کھر کے درمیان پھنسائے، ایک کے بعد ایک لکیر کھینچتا، سرخوشی کی سسکاریاں بھرتا تیزی سے ادھر ادھر پھرتا۔ بتدریج، یہ نقشے، ہتھیوں اور گراریوں کے ایک پیچیدہ حجم میں ڈھلتے گئے، جس نے آدھے سے زیادہ فرش کو ڈھانپ لیا، جو باقی جانوروں کو بالکل نا قابل فہم مگر بہت مرعوب کن لگا۔ وہ سب، دن میں کم سے کم ایک بارسنو بال کے نقشوں کو دیکھنے ضرور آتے تھے۔

حد یہ کہ مرغیاں اور بطخیں بھی اس اہتمام سے آئیں کہ کھریا مٹی کے نشانوں پہ نہ پھر جائیں۔ فقط نپولین الگ تھلگ رہا۔ اس نے ابتداء ہی سے پون چکی کی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔ ایک روز، مگر، غیر متوقع طور پہ وہ پون چکی کے نقشے دیکھنے آ دھمکا۔ وہ چھپر کے چاروں طرف بھاری قدموں سے پھرا، بہت غور سے نقشوں کی ہر تفصیل کو دیکھا اور دو ایک بار انہیں سونگھا، پھر کچھ دیر کھڑا اپنی آنکھوں کے کونوں سے انہیں تاکتا رہا پھر اچانک اس نے اپنی ٹانگ اٹھائی نقشوں پہ موتا اور ایک بھی لفظ کہے بغیر ٹل گیا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج۔ جنگ کے بعدجانور راج: سنو بال کا فرار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).