جناب وزیراعظم! آپ کا بیانیہ ہے کیا؟


خبرگرم ہے کہ جناب وزیراعظم اس بات پربہت بے کل اور مضطرب ہیں کہ حکومت کا بیانیہ مؤثراورجامع انداز میں عوام تک نہیں پہنچ پا رہا۔ حکومت کو پارلیمینٹ کے اندر اور باہر سخت صورت حال کا سامنا ہے۔ حالانک آج کی اپوزیشن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی چند کمزور اور نحیف ونزار اپوزیشن میں شمار ہوتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں کی اعٰلی قیادت کو میگا کرپشن کے کیسز کا سامنا ہے۔ ن لیگ کے روحِ رواں اور مرکزی قائدین لوہے کے چنوں سمیت اندر ہیں، کچھ عدالت کی توہین کے جرم کی پاداش میں پانچ سالہ نااہلی کی سزا کاٹ رہے ہیں اور باقی جو ہیں وہ اندر جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کی اعٰلی قیادت بھی سخت مشکل میں ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کیسز میں کسی بھی وقت زرداری سمیت بہت سے سرکردہ راہنما گرفتار کیے جا سکتے ہیں۔ زرداری صاحب کے چند معتمدِ خاص اور راز درونِ خانہ سے آشنا جاں نثار پہلے ہی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ  باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب میں۔

بات شروع  ہوئی تھی جناب وزیراعظم کی اس گفتگو سے جس میں انہوں نے حکومتی بیانیے کے عوام تک رسائی اور اس کی پذیرائی نہ ہونے پر اضطراب کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے خاص طور پر تاکید کی ہے کہ اسمبلی میں اپوزیشن کی تقریروں کا جواب دینے کے لیے جناب فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان جیسے گفتار کے غازیوں کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں حضرات گرم و سرد چشیدہ، جہاندیدہ اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں مگر بصداحترام جناب وزیراعظم سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ان کا بیانیہ ہے کیا؟

الیکشن سے پہلے وہ ببانگ دہل یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ انہیں اپوزیشن بینچز پر بیٹھنا قبول ہے مگرچوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ لیکن جب وقت آیا تو چودھری پرویزالہٰی جیسے ڈاکوؤں اور ایم کیوایم جیسے بھتہ خوروں اور قاتلوں سے اتحادد کر ڈالا۔ الیکشن سے قبل کپتان صاحب بتکرارعوام کو بتاتے رہے کہ اگر ڈالر کی قیمت اور مہنگائی بڑھے، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، معاشی بدحالی اور چوربازاری اور اندھیرنگری چوپٹ راج کا ماحول ہو تو اس کا ذمہ دار وقت کا حکمران ہوتا ہے مگر اب ان سب خرابیوں کی جڑ سابقہ حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔

الیکشن سے پہلے وہ اصرار کرتے رہے کہ اگر کسی قتل کا قاتل نہ پکڑا جائے تو اس کا قاتل صوبے اور ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ان کا مؤقف یہ تھا کہ بار بار بیانات اور فیصلے بدلنے والا لیڈر نہیں ابن الوقت اور بہروپیا ہوتا ہے مگر اب وہ یوٹرن نہ لینے والے کو لیڈر ہی نہیں مانتے۔ کل تک وہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں جاں بحق افراد کا قاتل وزیراعظم اور وزیراعٰلی ہونے کے ناتے نواز شریف اور شہباز شریف کو سمجھتے رہے مگر آج ساہیوال المیے کو پنجاب پولیس کے چند اہلکاروں کی غفلت اور کوتاہی بتا رہے ہیں۔

کل تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ماڈل ٹاؤن قتل عام  پر بار بار مؤقف بدلنے پر معتوب کرتے رہے مگر آج ساہیوال کے دلخراش واقعات پر ان کی اپنی حکومت جتنی جلدی اور ڈرامائی اندازمیں مؤقف بدل رہی ہے اتنی جلدی تو انڈین فلم کی ہیروئن اپنا لباس بھی نہیں بدلتی۔ کل تک سپریم کورٹ اور نیب کے فیصلوں اور کارروائیوں کو آزاد اداروں کی آزادانہ کارروائیاں کہنے والے آج ان اداروں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ حکومت میں آنے سے قبل پٹرول پینتالیس روپے لیٹر بتا رہے تھے اور آج اس کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں تو کپتان صاحب اپنے وزیرخزانہ کا دفاع  فرما رہے ہیں۔

نوے دن میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینے کا دعویٰ کرنے والے آج اپنے خاندان کے افراد کی کرپشن کے الزامات میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ پہلے سبق دیا جاتا تھا کہ اگر اوپر بیٹھا بندہ ٹھیک ہو تو نیچے والے بھی سب فرشتے بن جاتے ہیں مگراب یہ بیانیہ بھی پٹ رہا ہے۔ کل تک بے لاگ اور منصفانہ احتساب کی رٹ لگانے والے آج مشرف کے محاسبے کی بات پر کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی صورت حال کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ کل تک خودی اور خودداری کا درس دینے والے یہ ہانک لگایا کرتے تھے کہ قرض اور امداد مانگنے والے حکمران ملک و قوم کو بے غیرت بنا دیتے ہیں مگر آج خودداری کے یہی پتلے کشکول بردار نگر نگر آوازلگاتے پھر رہے ہیں۔

زرداری سے ہاتھ ملا کر آئینے میں اپنی شکل نہ دیکھ سکنے والے زرداری صاحب کو سیاسی گرو مان کر اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اب زرداری کی کرپشن کی دہائی دے رہے ہیں۔ مذہب، سیاست، فلسفے، معیشت، سماجیات اور اخلاقیات کو گڈمڈ اور خلط ملط کرنے والے ایک وقت آتا ہے اسی طرح حیران وپریشان پھرتے ہیں۔ آج جب وزیراعظم صاحب کو اپنے بیانیے کوعوام میں پھیلانے کے لیے فواد چودھری جیسے ہر سیاسی جماعت کے لاؤڈ سپیکروں اور فیاض الحسن چوہان جیسے شباب ملی کے سابقہ غنڈوں کی ضرورت پڑ ہی گئی ہے توان دونوں نابغوں کو پہلے یہ تو سمجھا دیں کہ آپ کا بیانیہ ہے کیا؟ اقتدار سے پہلے والا یا اقتدارملنے کے بعد والا؟ کاش عمران خان نے سیاست کو ذاتی دشمنی بنا کر اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی مزموم روش کوعام نہ کیا ہوتا تو آج حکومت کے پہلے پانچ ماہ ہی میں ایوان اقتدار میں وعدوں اور دعووں کی سیکڑوں قبریں نہ بنتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).