ایک ریسٹورینٹ جہاں بوڑھی اماں چاۓ بیچتی اور محبتیں بانٹتی تھیں


ریسٹورینٹ کا نام آتے ہی دماغ میں ایک ایسی جگہ کی تصو یر اُ بھرتی ہے جہاں داخلی دروازے پر صاف شفاف یونیفارم میں ملبوس ایک نوجوان آپ کے لئے کالے شیشوں کا دروازہ کھولتا ہے اور آپ کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے۔ یہ مسکراہٹ سدا اس کے چہرے پر رہتی ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ اُسے آپ پر یا آپ کے بچے پر کوئی خصوصی قسم کا پیار آرہا ہے۔ بلکہ یہ تو اُس کی ”کمپنی پالیسی“ ہوتی ہے۔ اندر داخل ہونے کے بعد صاف شفاف میز کرسیاں آپ کی منتظر ہوتی ہیں۔

آپ جس میز پر بیٹھنا چاہیں گے ایک بیرا جلدی سے آکر آپ کو بہت تمیز سے منع کرے گا کیو نکہ وہ ٹیبل تو ہمیشہ ”بک“ ہوتی ہے۔ آپ کو دوسرا ٹیبل دیا جائے گا۔ ویٹر چاہے جہاں کے بھی ہوں گے ان کی ایک روایتی وضع قطع ہوگی۔ بال ہمیشہ جیل لگے ہوئے ہوں گے۔ دبلے پتلے جسم، نوکیلے جوتے پہینے ہوئے اور چہرے پر وہی ایک طرح کی مسکراہٹ سجا ئے ہوئے۔ لیکن آج میں آپ کو ایک مختلف ریسٹورنٹ میں لے کر جارہی ہوں۔ جوکہ ایک بہت مختلف قسم کا ریسٹورنٹ تھا۔ افسوس یہ ہے کہ وہ ”تھا“ ”ہے“ نہیں۔

یہ ریستوران کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے خضدار کے آس پاس کہیں پہاڑوں کے بیچ میں آتا تھا۔ یہ ریستوران کسی ملٹی نیشنل کا نہیں بلکہ ایک بوڑھی اماں کی ملکیت تھی۔ اس کی کوئی شاندار بلڈنگ نہیں تھی بلکہ ایک جھگی تھی جس میں چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ مٹی سے بنا ہوا چولہا ہوتا تھا جس کے سامنے بلوچی لباس پہنے وہ اماں بیٹھی ہوتی تھی۔ بے ترتیب چاندی جیسے بال، مہربان آنکھیں چہرے پر بے شمار جھریاں مگر بلا کا سکون اور اطمینان!

بابا ہمیں اس ریستوران میں ضرور چائے پلواتے تھے۔ شاید ہوٹل کے چائے میں ممتا کی آمیزش ہوا کرتی تھی۔ ہم جیسے ہی ریستوران پہنچتے تو اماں کے چہرے پر ایک فطری سی مسکرا ہٹ آجاتی۔ اماں بلوچی میں بات کرتی تھیں اور ہم سب بشمول بابا پشتو بولتے تھے۔ با با تو اماں کے ساتھ ایسے ملتے جیسے کوئی بچھڑا بیٹا ما ں سے ملتا ہے۔ اماں بھی نجانے بلوچی میں کیا بولتی تھیں مگر ہمیں بس اتنا پتہ تھا کہ وہ سب اچھا بولتی تھیں۔

ادے، بابا چٹائیوں پر بیٹھ کر چائے بننے کا انتظار کرتے۔ کیونکہ چائے کا بننا ایک لمبا عمل ہوا کرتا تھا اماں جاکر اپنی لمبی گردن اور لمبے کانوں والی سفید خوبصورت بکریوں کا دود ہ دوہتی، لکڑیاں لاتی، چو لہا گرم کرتی، پھر چائے چڑھاتی دھیمے دھیمے وہ چائے بنتی رہتی اور اس دوران بابا ادے اور اماں آپس میں گفتگو کرتے اور ہم پاس میں بہتی چنچل ندی میں ننگے پیر کھیلتے اور پانی میں وہ گول گول مختلف رنگوں کے پتھر ڈال کر محظوظ ہوتے۔

ان پتھروں کا خوبصورت لمس مجھے آج بھی یاد ہے۔ ہماری آنکھیں، کان ہاتھ سب فطرت سے ہی آشنا تھے۔ ہمارے کھلونے پلاسٹک اور ربر سے نہیں بلکہ لکڑی، پتھر، اور مٹی سے بنے ہوتے تھے۔ اماں کی چائے بہت دھیرے دھیرے بنتی اور کسی کو بھی جلدی نہیں تھی۔ نہ راستے کو، نہ گاڑی کو اور نہ ہی ہمیں۔ کیونکہ نہ منزل مبہم تھی اور نہ ہی راستے تو جلدی کیسی اور پھر اگر شام ہو بھی جاتی تو کیا، آسماں بھی اپنا، زمین بھی اپنی، پہاڑ بھی اپنے۔ ہواؤں میں ہم نے اڑنا نہیں تھا۔ ہمارے رشتے بھی اور دوستیاں بھی زمیں پر تھیں۔ کوئی چیز دور نہیں تھی۔ جن سے رشتے تھے اور دوستیاں تھیں انہیں ہاتھ بڑھا کر چھو بھی سکتے تھے۔ ہر چیز اصلی تھی ورچوئل کی ٹرمینالوجی ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔

خیر کوئی گھنٹے بعد آخر کار دھواں اُڑاتی وہ کڑک چا ہتو ں والی چائے بن جاتی اور اماں مٹی کے چھوٹے پیالوں میں ڈال کر سرو کر دیتی تھیں۔ کوئی حساب کتاب نہیں تھا بسں اماں نے یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ سب کو سیر ہو کر چائے مل گئی ہے۔ چائے کا ذائقہ کیسا تھا کاش میں بیان کرسکتی محبت کی چاشنی، لکڑیوں کے انگارے، بکری کا خالص دودھ، پتی البتہ اُس وقت بھی یلو لیبل کی تھی۔ وہ ذالئقہ پھر کبھی نہ مل سکا۔ شاید وہ ذالٗقہ اُس جھگی یا چٹائی کا تھا یا پھر مٹی کے ان برتنوں کا ان پہاڑوں کا، خضدار کے مٹیھے پانی کا، اماں کی سخاوت کا، بچپن کی شرارت کا، بابا اور ادے کی شفقت کا ذائقہ تھا۔ شاید فطرت کا ذائقہ تھا یا پھر اپنائیت کا ذائقہ تھا جیسے ہم نے کمرشلائزئیشن سے بدل دیا۔ بہت گھاٹے کا سو دا کر لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).