فقط امید ہی کافی نہیں۔۔۔


\"mohdامید پہ دنیا قائم ہے اس کی تصدیق تاریخ نے کئی بار کی ہے۔ رسول خدا ﷺ جب پیغام اسلام لے کے عرب کے مکینوں کے ہاں جاتے ہیں تو سب یوں محتاط ہو جاتے ہیں کہ گویا یہ پیغام ان کے فائدے کا نہیں ہے ۔وہ خائف تھے کہ ان سے وہ کچھ چھن جائے گا جس پہ ان کے یقین کی عمارت کھڑی ہے۔ وہ پیغام کے اندر انسانی آزادی اور فلاح جیسے روشن نکات کو بھی نا دیکھ پائے مگر ان میں سے ہی کچھ غیر روایتی لوگ اس عظیم پیغام کی طرف راغب بھی ہوئے۔ امید کا سلسلہ بحال رہا اور یوں کاروان انسانیت آگے بڑھا اور کئی انسان دوستوں کی رفاقتوں کو سمیٹتا گیا۔ آج جب ہم حالات پہ بحث کرتے ہیں تو امید کا لفظ شاید رسماً استعمال ہو تا ہے کیونکہ انسانی اختیار اور کوشش کو خارج کر کے ہمیں بھلا کیا ثمرات ملیں گے۔ عوام کی اکثریت اس شعوری سطح پہ نہ پہنچ سکی جہاں خود غرضی اور مفاد پرستی جیسی قباحتوں سے جان چھوٹ پاتی اگرچہ مفاد اور غرض کے امکان کو مکمل رد نہیں کیا جا سکتا مگر جب یہ اس حد کو عبور کرے کہ جہاں سے آگے دوسرے انسانوں کی آزادی مجروح ہوتی ہے تو وہاں ایسی انسانی صفات دراصل مجرمانہ افعال کے ضمرےمیں آتی ہیں۔ اب اگر کوئی کوشش اس ضمن میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے تو وہ آگہی کو فروغ دینے کی ایسی مہمات ہیں کہ جس میں بنیادی انسانی نفسیات کی مدد سے لوگوں کو آمادہ کیا جا سکتا کہ وہ دوسروں کے جینے کے حق کو تسلیم کریں اور دوسروں کو اپنی زندگیوں کے فیصلے میں وہ اختیارلوٹائیں جو ان سے چھینا گیا کبھی خاندانی اقدار کے نام پہ، کبھی مذہب ، قوم اور جنس کے نام پہ حق تلفی ہوتی رہی۔ \”عورت اور مرد \”، اس سے پہلے \”آقا اور غلام \” کو طے شدہ رویے کا شکا رکھا گیا ان کی حیثیت جب معاشرے میں تبدیل ہوئی اور انہوں نے \” ماہر\” کی حیثیت سے جب محنت کو منڈی میں بیچنا شروع کیا جبکہ عورت نے چولہے پہ چڑھے سالن کے نیچے اپنی کمائی کا ایندھن جلایا تو اس کی آزادی کا گماں ہونے لگا، خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ جلد اپنے حقوق کی بات کرنے لگیں گے کیونکہ یہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی بدلتی اور بڑھتی قابلیت سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ تو وہاں مذہبی مثالوں اور حوالوں کو متعارف کرا کے انہیں تسلیم کرایا گیا کہ وہ خاص حدود کے پابند ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور اس کی قدرت انہیں آزاد تخلیق کر چکی ہے۔

 یہ زمین بنجر نہیں ہے مگر آج جب اس دھرتی کی مٹی پہ خون گرتا ہے تو یہ بنجر رہ کے احتجاج کر تی ہے کہ قدرت نے جس مٹی میں پھول اگانے کی صفت رکھی ہے ہم اس میں پھول دفن کرتے ہیں۔ امن کے گیت گانے اور راگ الاپنے کی اہمیت کم نہیں ہے مگر اس کے لیئے عملی کوشش ہی دراصل کامیاب ہو سکتی ہے۔ ذاتی ترجیحات بنا کر ہی اس سماجی مقام کو حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جہاں لوگون کو تحفظ کا احساس ملے۔ ایسی تمام حقیقتیں جنہیں چھپا کر ہم قومی یا ملی وقار حاصل کرنے کا وہم کرتے ہیں ہمیں ان سب تاریخی مغالطوں سے اولاً جان چھڑانی پڑے گی جنہیں بنیا د مان کر ہم نے فکری آزادی پہ پابندیاں لگا لیں ۔ آرٹ اور سائنس کے میدان میں ہم جو حاصل کر سکتے تھے وہ سب اس بحرانی صورتحال کی نذر ہو گیا۔ ریاستوں میں منڈیوں کا لگنا ایک معاشی سرگرمی کا حصہ ہے مگر خود ریاست کو ہی منڈی تصور کر لینا دراصل ایک ایسا رجحان پیدا کرنا ہے جو لالچ اور خود غرضی کو بنیا د مان کر کوئی کردار نبھائے گا۔ ہمارے ہاں \”زیر\” کرنے اور \”زیر دست\” رکھنے کی روایئت کافی پرانی ہے اگرچہ یہ سب رویئے دراصل انتہائی بو سیدہ ہو چکے ہیں البتہ محکوم اور غلام رکھنے کی رسم ابھی تک اتنی سحر انگیز ہے کہ اس سے باز رہنا اکثر ایک \”سطحی\” حرکت لگتی ہے۔ اس سب کی وجوہات کو ہم جتنا بھی بدل بدل کے نام دیں لیں بہرحال شعوری پستی کو صف اول کی وجوہات میں گنا جائے گا اور \”پست شعوری\” کو قائم رکھنے کی دانستہ کوشش سے انکار ممکن نہیں ہے۔

آج اگر ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا کل بہتر ہو گا تو اس کے لیئے ہمیں اپنے ان خامیوں اور نقائص سے بچنا ہو گا جن کا شکار ہم آج ہیں صرف نیک خواہشات اور تمنائوں کی بنا پہ ہم مثالی معاشرے کو استوار نہیں کر سکتے۔ ہمیں احساس کرنے کی عادت کو اپنانا ہو گا۔ بہت ساری ایسی شخصی صفات جنہیں ہم محض اس لیئے نہیں اختیار کرتے کیونکہ آج کل اس کا زمانہ نہیں ہےمثلا ،\” ہمیں شریف نہیں بننا چاہیئے کیونکہ یہ دور شریفوں کا نہیں ہے\”۔\” رشوت اور سفارش کے بغیر کام کیسے ہو گا\”۔ \”میں اسے وہ بدلہ لوں گا کہ اس کی سات نسلیں یاد کریں گی \”۔اب اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ آنے والی سات نسلوں کا قصور اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اس فرد سے کوئی نسبت رکھتی ہیں۔ شرافت کو اپنا لینا اسلیئے مناسب نہیں کیونکہ اس کی قدر نہیں اور اسے بد قسمتی سے \”کمزوروں\” کی عصا مانا گیا مزید یہ کہ اس مفروضے کے حق میں تاریخی اور مذہبی حوالےدیئے جاتے ہیں تا کی نام نہاد عاجزانہ موقف کو طاقت ملے۔

 اخلاقی حالت یہ ہے کہ ہماری مادی اور مالی حیثیت معاشرے میں ہمارا مقام طے کرتی ہے سوچ کا معتبر ہو نا لازمی نہیں کیونکہ ایسے کردار تاریخی کتابوں یا ادبی رسالوں میں بھلے لگتے ہیں۔یہ خام خیالات جب ہمارے یقین کا روپ دھارتے ہیں تو پھر ہمارے اعمال بن جاتے ہیں ۔ اکشر قیادت کو مورد الزام ٹھہرا کے یا اس کی عدم موجودگی کو وجہ بنا کے ہم اپنی شخصی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ہر انسان اپنی ذات کا قائد ہوتا ہے تبھی وہ سماج کے لیئے قیادت کو تلاش کرتا ہے ہم جو چاہتے ہیں اسے کسی نہ کسی حد تک اپنی ذات پہ نافذ کرتے ہیں اور پھر اس کا عکس لے کے معاشرے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔ لہذا کردار کے زریعے پرچار کے اثرات کافی دور رس نکلتے ہیں۔ لیکن جو ہے اور جس طرح رائج ہے کو اسی طرح انجام دے کے پھر اچھائی کی امیدیں باندھ  لینے میں کوئی حکمت نہیں ہو سکتی ۔ تبدیلی انسانی تاریخ میں بطور کو شش شاید اتنی خوشگوار کبھی نہیں رہی جتنا اس سے پھوٹنے والےثمرات اسے شیریں بناتے ہیں۔

ترجیحات ہی دراصل تعین کرتی ہیں کہ افراد کو کس سمت بڑھنا ہے اور کن مہارتوں سے افرادی قوت کو لیس کرنا ہے اپنے ارد گرد کے لحاظ سے کیسے لوگ متعلق رہ سکتےہیں، کیسے جنسی تقسیم اور دیگر تعصبات سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اس بات کو جاننا مشکل نہیں کہ ہم نے تعصبات کے سہارے تقسیم کو فروغ دیا ہے یا انسانی جوڑ کو ممکن بنایا ہے۔ نفرت اور تعصب کبھی بھی دیرپا امن کی بنیاد فراہم نہیں کر سکتا۔ جب \”ہم سب\” اس بات سے متفق ہیں تو اس سچ پہ ایمان لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments