پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں کرے گی: احتجاجی سیاست کا فیصلہ


 

پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت جلسے منعقد کر کے مسلسل دباؤ بنائے رکھے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ کئی ہفتوں سے سندھ میں مسلسل جلسے کررہی ہے۔ ان جلسوں میں وہ جہاں ایک جانب تحریک انصاف کی حکومتی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنا رہی ہے تو دوسری طرف وہ ان جلسوں میں پی پی پی کی قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کے سلسلے میں جے آئی ٹی رپورٹ کو نا صرف مسترد کرتی ہے بلکہ جے آئی ٹی رپورٹ کو جانبدارانہ اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیتی ہے۔ پی پی پی کی قیادت اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات کا جہاں ایک جانب عدالتوں میں سامنا کر رہی ہے، وہاں کہا جا رہا ہے کہ وہ ان مقدمات کا سامنا سیاسی میدان میں بھی کر رہی ہے۔

 کہا جا رہا ہے کہ پی پی پی قیادت نے مقدمات کے دباؤ میں متحدہ اپوزیشن کی داغ بیل ڈال دی ہے اور وہ اب پارلیمنٹ میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس ضمن میں پی پی پی کے حکومتی اتحاد ی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی رابطے ہیں۔

 اطلاعات کے مطابق پی پی پی قیادت نے پارٹی رہنماؤں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ناصرف فوجی عدالتوں کی مخالفت کر دی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 18 ویں ترمیم پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور پی پی پی ایوانوں، عدالتوں اور سڑکوں پر جنگ لڑے گی۔ پی پی پی کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر پی پی پی کی قیادت کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار عمران خان ہوں گے۔ پی پی پی کے جس اجلاس میں یہ فیصلے کیے گئے اس اجلاس میں یوسف رضاگیلانی، رضاربانی، خورشید شاہ، فریال تالپور، اعتزازاحسن، شیری رحمان، فاروق نائیک، نوید قمر، نثار کھوڑو، سعید غنی، مرتضیٰ وہاب اور دیگر اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ ان رہنماؤں کی موجودگی میں پی پی پی کے فیصلے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ پی پی پی مستقبل میں جارحانہ سیاسی حکمت عملی اختیار کرے گی اور وہ احتجاجی سیاست کی جانب جائے گی۔

 پی پی پی نے فروری میں سندھ کے تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہروں کا بھی اعلان کیا ہے پی پی پی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو نے لاڑکانہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے این ایف سی میں صوبوں کے حصے میں کٹوتی کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے جس میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوت دی جائے گی جبکہ دوسری جانب بدین میں فاضل راہو کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہاکہ پورا پاکستان سن لے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان پانچ سال نکال سکیں، ان کی جنگ مجھ سے ہے، یہ جنگ صرف 18 ویں ترمیم پر ہے۔ یہ سازش ہمارے نہیں بلکہ عوام کے خلاف ہے۔ ان کے الیکشن کو ملک میں کوئی نہیں مانتا۔ یہ نہ عوام سے آئے ہیں اور نا ان کا عوام میں جانے کا کوئی ارادہ ہے۔

 سیلیکٹو وزیراعظم بن ہی گئے ہو تو کچھ سیکھ لو۔ سیکھنے میں اتنا وقت نہیں لگتا۔ اتنا دیوار سے مت لگاؤ کہ پھر عوام میرے ہاتھ میں نہ رہیں۔ پی پی پی کی قیادت کی جانب سے تند و تلخ لہجہ، لگاتار جلسے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان تلخیاں بڑھیں گی۔ ادھر سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی خطرہ نظرنہیں آتا تاہم پی ٹی آئی نے مستقبل میں سندھ میں پی پی پی کو پریشان کرنے کے لیے جی ڈی اے سمیت ایم کیو ایم سے رابطے کیے ہیں۔

 یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے جو سودمند ثابت ہوئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کو پارٹی کے بند دفتر کھلوانے، لاپتہ کارکنوں کو بازیاب کرانے کی یقین دہانی سمیت کراچی کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکیج دینے کا بھی وعدہ کیا ہے اگر ان وعدوں کی پاسداری ہوجاتی ہے تو ایم کیو ایم اپنا تنظیمی ڈھانچہ ایک بار پھر بحال کرے گی اور انہیں یونٹ، سیکٹر کی سطح پر کارکنوں سے رابطوں میں آسانی ہو گی۔ ایم کیو ایم کی کوشش ہو گی کہ ان کے دفاتر جلد کھلوائے جائیں تاکہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں کارکنوں سے رابطے بحال کر سکیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں ماضی کی تاریخ دہرا سکتی ہے۔

 وزیراعظم کی یقین دہانیوں کا بھی نتیجہ ہے کہ حیدرآباد میں منعقد جلسہ عام کے دوران ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ ایم کیو ایم کا اچھا وقت آنے والا ہے۔ عمران خان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔ سندھ کے شہری علاقوں سے ناانصافیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

 خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی سندھ میں خودمختار صوبے کا مطالبہ کیا تھا اور آج بھی خود مختار صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سندھ کی کرپٹ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین لیے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے گئے۔ سندھ میں ایک کرپٹ حکومت ہے جس نے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔

حیدرآباد میں ایک طویل عرصے بعد ایم کیو ایم نے بڑا عوامی اجتماع منعقد کیا۔ ایم کیو ایم اب آہستہ آہستہ ایک بار پھر عوامی رابطے بحال کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ سندھ میں پی پی پی کے جلسوں کا جواب دے جس کے لیے وہ جی ڈی ا ے اور ایم کیو ایم پر انحصار کر رہی ہے۔ جی ڈی اے سندھ کے شہری علاقوں میں اثرورسوخ نہیں رکھتی۔ سندھ کے شہری علاقوں کا محاذ پر ایم کیو ایم جبکہ دیہی علاقوں میں جی ڈی اے تحریک انصاف کے ساتھ عوامی اجتماعات منعقد کر کے سیاسی شو کر سکتی ہے جس کے لیے گفت وشنید جاری ہے۔

سندھ اس وقت سیاسی اکھاڑہ بن گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں سندھ میں سرگرم ہیں۔ اے این پی نے بھی ایک طویل عرصے بعد چپ کا روزہ توڑا ہے اے این پی 20 جنوری سے 27 جنوری تک باچاخان کی برسی کے حوالے سے مختلف پروگرام، عوامی اجتماعات منعقد کر رہی ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید اس ضمن میں خاصے سرگرم ہیں تاہم اے این پی کے تھنک ٹینک کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کراچی میں کچھ عرصہ قبل اے این پی ایک بڑی سیاسی قوت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے اے این پی چند پختون علاقوں تک ناصرف محدود ہوئی بلکہ الیکشن 2018 میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی۔ ان وجوہات کے تعین اور تدارک کے بعد ہی اے این پی ایک بار پھر کراچی میں بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔

 )رپورٹ جمشید بخاری۔ بشکریہ روز نامہ جنگ(

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).