آسیہ بی بی مقدمہ،نظرثانی کی اپیل سماعت کےلیے مقرر


آسیہ بی بی

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 29 جنوری کو اس اپیل کی سماعت کرے گا

سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف دائر کی نظرثانی کی اپیل سماعت 29 جنوری کو کرے گا۔ نظرثانی کی یہ اپیل اس مقدمے کے مدعی قاری عبداسلام نے دائر کی تھی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 29 جنوری کو اس اپیل کی سماعت کرے گا۔ اس بینچ کے دیگر ارکین میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل ہیں۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے گزشتہ برس 31 اکتوبر کو توہین مذہب کے مقدمے میں ماتحت عدالتوں سے سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اُنھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا تھا۔ تاہم فیصلہ دینے کے دو ماہ سے زیادہ عرصے تک وہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے لیکن اس دوران نظرثانی کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

معاہدے کے بعد ملک بھر میں دھرنے ختم، حالات معمول پر

آسیہ بی بی کا مستقبل: مفروضے اور سوالات

آسیہ بی بی کو کیوں بری کیا گیا؟

آسیہ بی بی آزاد شہری ہیں لیکن ’ابھی تک ملک میں ہیں‘

سکاٹ لینڈ: مسیحی رہنماؤں کی آسیہ بی بی کو پناہ دینے کی اپیل

عمومی طور پر کسی بھی مقدمے میں نطرثانی کی اپیل اسی بینچ کے ارکین سنتے ہیں جنہوں نے اس کا فیصلہ دیا ہوتا ہے تاہم اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو اس بینچ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ دیگر دو جج صاحبان وہی ہیں جنہوں نے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ دیا تھا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظرثانی کی اپیل میں اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ عدالت اپنا فیصلہ تبدیل کرے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سیاسی جماعت تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔

اس جماعت کی قیادت کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ دینے والے بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور فوج کی اعلی قیادت کے خلاف توہین امیز الفاظ کہے تھے۔ اس کے بعد حکومت اور مذکورہ جماعت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اس درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی۔

مظاہرین

آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنانے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے

حکومت نے اس عدالتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سات نومبر کو آسیہ بی بی کو پنجاب کے صوبہ ملتان میں خواتین کی جیل سے رہا کردیا تھا۔ رہائی کے بعد متضاد خبریں آرہی تھیں کہ آسیہ بی بی بیرون ملک چلی گئی ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے اس کی تردید کی اور دعوی کیا ہے کہ آسیہ بی بی رہائی کے بعد پاکستان میں ہی ہیں اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک جو اس وقت بیرون ملک میں ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نظرثانی کی اس اپیل کی پیروی کرنے کے لیے پاکستان آئیں گے۔

سیف الملوک

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کہتے ہیں کہ وہ نظرِثانی اپیل کی پیروی کے لیے واپس پاکستان آئیں گے

واضح رہے کہ آسیہ بی بی کے وکیل سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اپنے اہل خانہ سمیت بیرون ملک چلے گئے تھے۔

درخواست گزار عبدالسلام کے وکیل چوہدری غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ وہ نظرثانی کی اس درخواست میں عدالت کو اس نکتے پر مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے کہ ماتحت عدالتوں کی طرف سے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنانے کا فیصلہ درست تھا۔

واضح رہے کہ ریاست مخالف تقاریر کرنے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات میں تحریک لبیک کی قیادت جن میں علامہ خادم حسین اور پیر افضل قادری سمیت اہم رہنما شامل ہیں اس وقت جیل میں ہیں۔ حکومت نے اس جماعت کی قیادت کے خلاف غداری کے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی پر عائد الزامات کے خلاف گواہوں کے بیانات میں تضاد کو ایک وجہ بتاتے ہوئے انھیں بےقصور قرار دیا تھا۔

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جو دعویٰ کرتا ہے، ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ‘پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرے۔ جس جگہ بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp