بابا جی ہمیں خودی کا مطلب سکھا گئے


\"mubashar-saleem\"

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم میڈیکل کالج میں پڑھا کرتے تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی والی نہر کی جانب جامن کے درختوں کے نیچے ایک چائے والے نے اپنا بسیرا لگا لیا۔ وہ چائے بڑے مزے کی بناتا تھا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی چائے اس قدر مشہور ہو گئی کہ لوگ اس کی چائے پینے دور دور سے آنا شروع ہوگئے۔ کچھ لوگوں کو اس کی چائے کے شوقین افراد کو دیکھ یہ شک بلکہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ چائے میں کوئی نشہ آور چیز ملاتا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس کی چائے پی لیتا ہے تو پھر وہ اس کا دیوانہ ہو جاتا ہے ۔کچھ کا خیال تھاکہ لوگ خالص دودھ کے عادی نہیں ہیں اس لئے جب خالص دودھ کی چائے ملی ہے تو کوئی اور چائے ان کی زبان پر اپنا ذائقہ نہیں چھوڑتی ۔ خیرجتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر اس کے اس چھوٹے سے کھوکھے سے لوگوں کا رش تبھی ختم ہوتاتھا، جب وہ دودھ ختم ہوجانے کی اطلاع دیتا تھا۔

لوگوں کی کیا بات کرنی، ہم تو خود اس چائے کے نشے کے عادی تھے۔ ہم کیا، پورا ہوسٹل ہی اس کا دیوانہ تھا۔ دوپہر کا کھانا کھا کر شائد ہی کوئی لڑکا ایسا ہو گا جو چائے پینے اس کے کھوکھے پر نہ پہنچتا ہوگا۔

ایک دن ہم اپنے چائے کے کپ کے انتظار میں نہر پر بنے پل کی منڈیر پر بیٹھے تھے کہ ایک بابا جی، یہی کوئی ستر سال کے پیٹے میں ہوں گے، سڑک سے گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے ہمارے پاس رکے اور پوچھنے لگے بیٹا ٹھوکر نیاز بیگ یہاں سے کتنا دور ہے؟

ہم میں سے ایک لڑکے نے لاپرواہی سے جواب دیا ۔ یہی کوئی چھ کلومیٹر! بابا جی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا اور کچھ لمحے کے لئے سوچا اور شکریہ ادا کر کے چل دیے۔ بابا جی کے جانے کے بعد ایک دوست کہنے لگا، لگتا ہے بابا جی کو شائد پتا نہیں ہے کہ یہاں سے ویگنیں بھی ٹھوکر تک جاتی ہیں۔

ابھی بابا جی کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ ہم دوست دوڑ لگا کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ اور بتایا کہ بابا جی آپ یہیں پر انتظار کرلیں۔ ٹھوکر جانے والی ویگن یہیں سے گزرتی ہے۔ آپ اس پربیٹھ کر چلے جائیں۔ بابا جی نے ہماری بات پر کوئی غور نہیں کیا اور چلتے رہے۔ ہم نے پھر اصرار کیا کہ اتنی گرمی میں آپ کہاں پیدل اتنا سفر کرتے پھریں گے۔ ابھی ویگن آجائے گی اور آپ اس پر بیٹھ کر چلے جائیں۔

بابا جی چلتے چلتے رک گئے اور نگاہیں نیچی رکھے بولے بیٹا مجھے اوکاڑہ جانا ہے اور میرے پاس صرف اتنے پیسے ہیں کہ میں ٹھوکر سے اوکاڑہ کا کرایہ ادا کرسکوں۔ اس لئے مجھے ٹھوکر تک کا فاصلہ پیدل ہی طے کرنا پڑے گا۔

بابا جی کی بات سن کر ہم سناٹے میں میں آگئے اور ہر روز جگہ جگہ، بھیک مانگتے اپنی مجبوریاں سنا کرمظلومیت کا لبادہ اوڑھے لوگ نگاہوں کے سامنے آگئے۔ ایک دوست نے بڑی مشکل سے کچھ پیسے دے کر اس شرط پر ان کو راضی کیا، جب کبھی آپ یہاں سے گذریں تو ہمیں واپس کر دیجئے گا۔

بابا جی تو چلے گئے لیکن ان سے مل کر خودی کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ بڑی بڑی کتابیں پڑھ کر اورلیکچر سن کر بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments