کیا ایدھی ملحد اور زندیق تھے؟


\"salimستر سال تک بے لوث سماجی خدمات کرنے کےعوض، پاکستان کے ہر طبقے نے، ایدھی صاحب پر قلبی عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں، سوائے معدودے چند تنگ نظر ملّاؤں کے۔ مگر گنتی کے ان چند کم ظرف لوگوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھنا چاہئے کہ ایسے استثنا ہر برادری میں پائے جاتے ہیں۔

حیرت مگر تب ہوئ جب بریلوی مکتبہ فکر کے ایک معتدل عالم دین نے ایدھی کا جنازہ پڑھانے سے پہلو تہی کی۔ ابھی اسی ادھیڑبن میں تھا کہ مسلمان کا وہ کونسا جرم ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ نماز جنازہ کا مستحق بھی نہیں ٹھہرتا؟ کہ ایک دوست نے کراچی کے ایک مشہور دیوبندی عالم دین کی ایک پرانی ویڈیو شیئر کردی جس میں موصوف نے عبدالستار ایدھی کو ملحد اور زندیق قرار دیا۔

مفتی منیب الرحمان اور مفتی زرولی خان جیسے نام، ملّائیت کی فہرست میں نہیں آتے بلکہ انہیں علمائے دین کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ موصوف کا یہ جملہ، ذوق سلیم پہ ایسا برق بن کر گرا کہ کچھ دن تک قلم اٹھانے کا یارا بھی نہ رہا۔ اب بہرحال، میں مفتی زرولی صاحب کے مذکورہ جملے کو موضوع بنا کر، دوستوں کی خدمت میں صرف چار معروضات رکھنا چاہتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔

پہلی عرض یہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں بعض نمایاں افراد، کسی خاص احساس کمتری کی وجہ سے نفسیاتی مریض ہوا کرتے ہیں جسے ان کی بیماری سمجھ کر برداشت کرنا چاہیئے۔ 1995 میں خاکسار پہلی بار، مفتی زرولی خان کی زیارت کرنے ان کے مدرسے احسن العلوم واقع گلشنِ اقبال گیا۔ اپنے شاگردوں کے حلقے میں جلوہ افروز، میرے جیسے نووارد اجنبیوں کی پرواہ کئے بغیر، وہ حکیم اختر صاحب کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے۔ حکیم اختر صاحب ایک قابل احترام دیوبندی بزرگ تھے جن کو زرولی صاحب \”فراڈیا\” اور \”مکار\” فرما رہے تھے۔ خطا حکیم صاحب سے یہ ہوئی تھی کہ مفتی زرولی سے ان کے ہمسائے میں خانقاہ بنانے کی اخلاقاً اجازت طلب کی تھی مگر اب خانقاہ سے آگے بڑھ کر، اپنا مسجد و مدرسہ ہی بنا بیٹھے تھے جسکا مفتی زرولی صاحب کو رنج تھا۔ حکیم اختر کے بعد، مفتی زرولی صاحب نے مولانا طارق جمیل سے لیکر، مفتی تقی عثمانی تک، کسی کو بھی اعزاز دشنام سے محروم نہیں چھوڑا (ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں)۔

بات یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے لئے بزعم خود ایک مقام متعین کردیا کرتے ہیں جس سے محرومی کی صورت میں، اپنے محسود کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ یہ صرف علما پہ موقوف نہیں ۔ ہماری اردو صحافت کا ایک منفرد کالم نویس بھی اپنے ہم عصر کالم نگاروں کو \”بھاڑے کے ٹٹو\” کہتا رہتا ہے۔ اسی طرح، ہمارے ایک محترم ایٹمی ساینس دان نے بھی اپنی ذات کا وہ آئینہ خانہ بنا رکھا ہے جسکی ہر دیوار میں ان کو صرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ لیکن اس خامی کے باوجود، نہ تو مذکورہ کالم نویس کے فن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محترم سائنسدان کے ہنر سے۔ ایسے ہی مفتی زرولی خان، اپنے شعبہ کا ایک بڑا نام ہیں۔

پس میری پہلی گزارش کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی ماہر فن کی کسی اور بشری کمزوری کی بنا پر، اس کو اس کے جائز مقام سے محروم نہ کرنا چاہیئے۔

دوسری عرض یہ کہ ایدھی صاحب کی رحلت نے، کج فہم اہل علم کے علاوہ کم فہم مولویوں کو بھی بے نقاب کردیا ہے جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسلام ، انسانیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ جو مولوی صاحبان سوشل میڈیا پہ اس قسم کے ٹرینڈ چلا رہے ہیں جیسے \”میرا مذہب، انسانیت نہیں، اسلام ہے\”۔ انکو علماء کمیونٹی کا نمایندہ نہ سمجھا جائے۔

دیکھئے، دنیا کے کسی گوشے میں پیدا ہونے والا انسان کا بچہ، فطرتِ اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے یعنی ہر انسان، مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے۔ نوزائیدہ بچے میں قدرت نے سب بشری جذبات رکھ دئیے ہوتے ہیں سوائے ایک کیفیت کے۔ نوزائیدہ بچہ، محبت، خوف، خوشی، غم کو بخوبی سمجھتا ہے مگر ایک چیز سے وہ ناواقف ہوتا ہے جسے \”نفرت\” کہتے ہیں۔ پس یہی مسلمان کی تعریف ہے کہ مسلمان بھی، بالخصوص کسی \”انسان\” سے نفرت نہیں کرسکتا۔

دیکھئے، قرآن، رسول اور کعبہ تینوں کو \”ھدی اللناس\” کہا گیا۔ \”الناس\” میں آدم کا ہر بچہ اور بچی شامل ہے۔ پس نبی نے فرمایا کہ انسانوں میں سے بہترین وہ ہے جو انسانوں کے لئے نفع مند ہو۔ (خیر الناس من ینفع الناس)۔ سب انسانوں میں مولوی حضرات بھی چونکہ شامل ہوتے ہیں تو ان سب میں بہترین وہ آدمی ہے جو لوگوں کے نفع کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ نفع، وضو نماز سکھانے کا نہیں بلکہ یہیں دنیاوی تکالیف میں معاونت کرنے کا ہے۔ اس کا فیصلہ خود رسول بھی اپنی زندگی میں کر گئے۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حضور کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی گئی کہ دن کو روزے رکھتا ہے اور رات مصلے پہ گذارتا ہے وغیرہ۔ پوچھا، اسکے اونٹ کی خبرگیری کون کرتا ہے؟ کھانے پینے کی ترتیب کس کے ذمے ہے؟ بتایا گیا کہ اس کا دوسرا بھائی کرتا ہے جو اس سے کہیں کمتر عبادت گذار ہے۔ فرمایا، وہ دوسرا، اس پہلے سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے۔

ایک اور حدیث بھی سن لیجئے۔ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (خیرکم من تعلم القرآن و علمہ)۔ اس حدیث کو \”انفع الناس\” والی حدیث سے جوڑ کر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ قرآن کی تعلیم ہے ہی انسانیت کی خدمت سکھانے۔ جس نے قرآن سے دردِ انسانیت نہ سیکھا ، نہ سکھایا، وہ فقط عین غین کو حلق میں زیر زبر کرنے کا فن سیکھ رہا ہے نہ کہ قرآن سیکھ یا سکھا رہا ہے۔

یادش بخیر، پشاور یونیورسٹی کے پہلو میں واقع، راحت آباد میں جماعت اسلامی کا ایک مدرسہ ہے۔ اس مدرسے کا لانگری (باورچی) تبلیغ میں وقت لگا آیا تو اسکے کہنے پر 1988 میں ہم نے اس مدرسے میں تبلیغی گشت رکھا۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کو تبلیغی جماعت سے علی الاعلان چڑ تھی مگر اپنے مخصوص منافقانہ انداز میں، بجائے منع کرنے کے، انہوں نے ایک چال چلی کہ عین بیان کے وقت، تحفیظ کے بچوں کو زور زور سے قرآن خوانی میں لگا دیا۔ ان کے ہاں ایک افغانی عالمِ دین بھی تھا جسے یہ ڈارمہ اچھا نہ لگا اور اس نے وہاں کے مولویوں کی کلاس لے لی۔ اس کا ایک فقرہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ باقی مولویوں سے اس نے پوچھا کہ عالم کون ہوتا ہے؟ پھر کہا کہ عاِلم وہ ہوتا ہے جس کے دل میں عالَم کا درد ہو۔

\”میرا مذہب اسلام نہیں، انسانیت ہے\” جیسے جملے صوتی اثرات کی بنا پر، سوشل میڈیا پہ مقبول ہوجاتے ہیں مگر ایسا تقابل اسلام کیلئے اچھا نہیں۔ مجھے یاد ہے، کچھ برس پہلے جب میں سیکولزرم کو بنیادی انسانی وصف سمجھتے ہوئے، اسے اسلام کا لازمی حصہ قرار دے رہا تھا تو سیکولرزم اور اسلام کا مقابلہ ڈالنے والے احباب، مجھے کوسنے دے رہے تھے۔ انہیں اس کا بھی خیال نہ رہا کہ انڈیا میں انکے اکابر، سیکولرزم کی بقا کیلئے خون کا آخری قطرہ بہانے کے نعرے لگا رہے تھے۔ آج مجھے ڈر ہے کہ \”اسلامسٹ\” حضرات، ایسی نامعقول پوسٹوں سے اسلام اور انسانیت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے کو کوشش کریں گے۔

پس میری دوسری گذارش کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام اور انسانیت ایک ہی چیز کے دونام ہیں اور اس میں تفریق کرنے والے، یا کج ہیں یا کم فہم۔

تیسری عرض یہ کرنا ہے کہ پاکستانی سماج کا سب سے بھیانک پہلو، تنگ نظر ملائیت ہے۔ اگرچہ ایدھی صاحب کی موت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرنے والی تنگ نظر ملائیت، سوسائٹی میں خاصی عریاں ہوئ ہے۔ مگر شہروں میں رہنے والے، آسودہ حال لوگ ، کم فہم ملّا کی خون آشامی سے ابھی بھی پوری طرح واقف نہیں۔ وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ملّا لوگ، فتوے نما گالیاں دے دیتے ہیں اور بس۔ نہیں بھائی! گلی گلی میں پھیلے فتوی فروشوں نے پاکستان کا کیا کباڑہ کردیا، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ ملّا کے زیر اثر، ممتاز قادری کا معاملہ ہو یا چک جھمرہ میں اپنا ہاتھ کاٹنے والے بچے کی کہانی، یہ تو میڈیا میں جگہ پا چکے مگر میڈیا کی آنکھوں سے دور، کئ بےگناہوں کا خون نیم ملایت کے سر ہے۔ کل ہی ہمارے ایک کولیگ، پاکستان سے عید کی چھٹی گذار کر آئے توبتایا کہ چک رام داس کے قریب کسی گاؤں میں، دو معصوم بچیوں نے روزہ رکھا تھا۔ گرمی اور پیاس سے بے حال ہوگئیں مگر مسجد کے مولوی نے روزہ توڑنے سے منع کردیا۔ بچیاں مارے پیاس کے شہید ہوگئیں۔ جنازے پر کوئی بڑے عالم بھی آئے جنہوں نے مولوی کے غلطی کی نشاندہی کی۔ جس پر بچی کے ورثا نے اشتعال میں آکر، مولوی کو جا کر قتل کردیا۔ ایسے کئی کیس گاؤں دیہات میں بکھرے پڑے ہیں جہاں کج فہم یا کم فہم مولویوں کی وحشت بال کھولے رقص کناں ہے۔ اس مسئلے کو اب سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت تنہا کچھ نہیں کرسکتی جب تک سوسائٹی کا باشعور طبقہ ساتھ نہ دے۔ ہر کج فہم مولوی کا ایک حلقہ اثر ہوتا ہے جو اسی کی طرح جنونی ہوتے ہیں۔ یہ صرف حکومت یا سماج کیلئے ہی نہیں، خود سنجیدہ علمائے کرام کیلئے بھی خطرہ ہوا کرتے ہیں۔

پس میری تیسری گذارش کا خلاصہ یہ ہے کہ کم فہم ملائیت کا تمسخر اڑانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس مذہبی بلیک میلنگ کے ناسور پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 چوتھی اور آخری عرض یہ کروں گا کہ اگر آپ واقعی انسانیت کیلئے مخلص ہیں اور فتنہ پرور ذہن نہیں رکھتے تو یہ حقیقت ذہن نشین کرلیجئے کہ نہ تو مولوی یا مدرسے کو بالکل ختم کیا جا سکتا ہے، نہ ہی پاکستانی عوام کو مولوی سے جدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ کرنا چاہئے کہ مذہبی طبقہ، کسی بھی سوسائٹی میں ایک شاک آبزور کا کام دیتا ہے۔

کرنے کا کام یہ ہے کہ گلی محلے کے فتوی فروشوں کو ایک مرکزی نظام میں لانا چاہئے۔ دیگر اسلامی ممالک میں سرکاری سطح پر ایک مفتی اعظم ہوا کرتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں جمہوری نظام ہونے کی وجہ سے، ہم پر کوئ شاہی مفتی اعظم مسلط نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کا منتخب کردہ ادارہ یعنی اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے جسکے ارکان کی ایک مقررہ مدت ہوا کرتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہی نہیں، عوام بھی اس ادارے کو تقویت دیں جوکہ اسکی تکریم کی صورت ممکن ہے۔ یہ مضبوط ہوگا تو گلی محلے کے مفتیان سے جان چھوٹے گی۔ یہاں تو ہر مسجد میں مفتی اعظم پاکستان تشریف فرما ہے جسکی رائے سپریم کورٹ سے بھی زیادہ حتمی ہوتی ہے۔ برسبیل تذکرہ، کراچی میں ہی ایک زمانے میں ، ایک اور جذباتی مفتی، رشید احمد صاحب ہوا کرتے تھے جنکا ماٹو\” نہی عن المنکر\” تھا۔ موصوف، داڑھی منڈوں کو نابالغ کہہ کر، نماز کی اگلی صف سے نکال دیا کرتے تھے۔ ایسے لوگ ہمارے باوردی فرشتوں کا خاص شکار ہوتے ہیں۔ پس ان کو پروموٹ کرنے کئ اقدام کئے گئے جن میں سے ایک رنگین ہفتہ روزہ بعنوان\” ضرب مومن\” کا اجرا بھی تھا جسکی شہہ سرخی پر، مفتی اعظم پاکستان کے نام سے موصوف کا فرمودہ لکھا ہوتا تھا۔ خاکسار نے ان کو خط لکھا کہ کیا آپ کے پاس \”مفتی اعظم پاکستان کی کوئ سند ہے؟ اگر نہیں تو یہ غلط بیانی آپ کے نام سے کون کر رہا ہے؟ جواب نہ دارد۔

اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کو وقار دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کونسل، چاہے گدھے کے گوشت کو حلال اور مرغی کو حرام ہی قرار دے دے مگر یہ فردی فتوی جات سے بہتر ہے کیونکہ اس فورم پہ ڈیبیٹ کی جاسکتی ہے۔ خاکسار کے خیال میں، اسلامی نظریاتی کونسل کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور اس ادارے کے علاوہ، فردی فتوی سازی پہ پابندی لگادی جائے۔ میں اپنے دوستوں سے ایک جملہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ آپ مولانا فضل رحمان سے لاکھ اختلاف رکھیں، اسکو ووٹ نہ دیں مگر اسے دانستہ ڈی گریڈ نہ کیا کریں کیونکہ اگر آپ مولانا فضل رحمان کو کمزور کریں گے تو بالواسطہ طور پر، ملّا فضل اللہ کو مضبوط کریں گے۔ اسی طرح میں لبرل دوستوں سے کہتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا تمسخر اڑا کر، آپ پرچون فتوی فروشوں کو ہی مضبوط کریں گے جن کے ساتھ کسی منطقی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔

پس میری چوتھی گذارش کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی سماج کی یکجہتی اور قومی امن کیلئے، پارلیمانی جمہوری نظام کو مضبوط کیا جائے۔ اپوزیشن کا ساتھ دینا بھی جمہوری نظام کی مدد ہے مگر ایسے لوگوں سے اجتناب بہتر ہے جو غیر جمہوری قوتوں کے بازو ہوں۔ ایسے لوگ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ایدھی مرحوم، جاتے جاتےبھی دو ایسے آدمیوں کی شناخت کراگئے ہیں۔ تاریخ بتائے گی کہ یہ بھی ایدھی صاحب کا پاکستانی قوم پر ایک اور احسان تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments