ایدھی کی میراث


جس طرح والدین کا اصل مقام ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد سمجھ آتا ہے اسی طرح عبدالستار ایدھی کی حقیقی عظمت کو میں نے اس دن محسوس کیا جس دن میں نے ان کی وفات کی خبر سنی.

مجھے خبر نہیں تھی کہ یکایک ایدھی صاحب مجھے دل کے اتنے قریب محسوس ہونے لگیں گے. پاکستان کے سب سے نامور سماجی کارکن اور ایک بڑے رفاہی ادارے کا بانی ہونے کی حیثیت سے ایدھی صاحب ہمارے لیے ہمیشہ ہی انتہائی قابلِ احترام رہے. لیکن ایک نحیف و نزار لاش کی وہ تصویر کہ جس کی عطیہ کردہ آنکھوں پر پٹی بندھی تھی، نے میرے دل میں ایدھی کے لیے اس عقیدت کو جنم دیا کہ میں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے کرتے ٹھٹک گئی. ایدھی صاحب کے لیے یہ دعائیہ الفاظ کتنے بے معنی لگنے لگے کہ یا اللہ مرحوم کے گناہ بخش دے اور اُسے جنت میں اعلی مقام عطا فرما.

 ایدھی کا تصور کروں تو “دینے والا”، “پالنے والا”، “پیار کرنے والا”، “اپنی ذات کے لیے بے نیاز”، کیسے کیسے خدائی الفاظ ہیں کہ جو ایک انسان کے لیے ذہن میں آ رہے ہیں. اور کیوں نہ آئیں؟ آخر وہ کون انسان ہے کہ جو زندگی اور انسانیت کو اتنا کچھ دے کر بھی بدلے میں اپنے لیے کچھ نہیں چاہتا. جاتے جاتے وہ آخری چیز بھی دان کر گیا جو اس کا بے جان بدن اس دنیا کو دے سکتا تھا. ایدھی اپنی مقدس آنکھیں عطیہ کر گیا. لیکن صرف نابیناؤں کے لیے ہی نہیں ، بینائی رکھنے والوں کے لیے بھی ایدھی کی میراث میں چند چیزیں ہیں.

ایدھی نے کامیاب زندگی کا ایک عجب ہی نسخہ بتا دیا ہے. اس کامیابی کے لیے اونچے اونچے محلوں کی ضرورت نہیں. اس کے لیے طاقت، اقتدار اور سرمایہ بھی درکار نہیں. وہ کامیابی جو دو کمروں کے بے سروسامان گھر میں بھی آن دھمکتی ہے. کپڑوں کا ایک جوڑا بھی کافی ہے جسے جب دھونا ہو تو بیوی کی چادر بطور تہبند استعمال کی جا سکتی ہے. ایک جوتا بیس سال تک بھی پہنا جا سکتا ہے اور بغیر کفن کے بھی دفن ہوا جا سکتا ہے. ان سب لوازمات کے بغیر بھی بڑا آدمی، بلکہ بہت بڑا آدمی، بنا جا سکتا ہے. ایدھی ہمیں بتا رہا ہے کہ زندگی کے لیے ایک چھوٹے سے پاگل پن کی ضرورت ہوتی ہے. بچوں جیسے پاگل پن کی. وہ پاگل پن جس کے کارن ایدھی بیلچہ لے کر سامنے والی سڑک سے گندگی صاف کرنے لگا اور کنوؤں میں اتر کر گلی سڑی لاشیں اٹھانے لگا. نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ. کہتے ہیں زندگی کی اصل تصویر موت کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے. لیکن کامیابیوں کے لیے بے صبرا انسان تصویر کے مکمل ہونے کا انتظار کس طرح کر سکتا ہے؟ ایدھی کہتا ہے کہ یہ بہت سادہ ہے. آپ اپنے اندر حال کا اطمینان لے آئیں. یہ اتنی “مطمئن کر دے” کیفیت ہے کہ سب مشکلات بے معنی ہو جاتی ہیں اور سب کچھ ممکن دکھائی دینے لگتا ہے.

ایدھی کی جسمانی آنکھیں دو افراد کو بینائی کی روشنی عطا کریں گی. لیکن صرف جسمانی آنکھیں ہی نہیں… جاتے جاتے وہ عظیم انسان اپنے باطن کی آنکھیں بھی اس معاشرے کو عطیہ کر گیا ہے. آج ایدھی وہ معیار بن گیا ہے جس کی کسوٹی پر ہم ریاست، سیاست دانوں، جرنیلوں، مذہبی عالموں اور معاشرے کا “درد” رکھنے والے افراد اور اداروں کو پرکھ رہے ہیں. لیکن لگتا نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایدھی کی ان باطنی آنکھوں کی قدر کر سکے گا. سوچتی ہوں کہ جس نے اپنے لیے ایک کفن لینا گوارا نہیں کیا تو کیا وہ اپنے جنازے کی اس پر شکوہ تقریب کے لئے رضا مند ہو جاتا. مجھے ایدھی صاحب کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین پر اعتراض نہیں بلکہ فخر ہے کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کی قدر کیا کرتی ہیں لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ ایدھی صاحب اپنی قبر میں حساب لگا رہے ہوں گے کہ اس جاہ و جلال پر اٹھنے والے اخراجات سے کتنے دکھیاروں کے دکھ بانٹے جا سکتے تھے. مگر مبلغ 30 کروڑ روپے میں ہسپتال سے گھر واپس پہنچنے والے مشکل سے ہی سمجھیں گے کہ صرف گارڈ آف آنر سے ایدھی کے احسانوں کا بوجھ اترنے والا نہیں ہے اور شاہ کے غسلِ صحت کی خبر سے حمام کے دن نہیں پھرتے ہیں.

میں کافی دنوں سے ایدھی صاحب کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہی تھی تو ان کے بارے میں سوچتے ہوئے یہ چند سطور میرے ذہن میں آئیں کہ جنہیں میں نے ایدھی صاحب کی وارثت سمجھتے ہوئے کاغذ پر رقم کر لیا. “اگر آپ نے چند دن کے لئے خوش رہنا ہے تو اپنی پسند کی کوئی چیز خریدیں. اگر آپ نے چند سال کے لئے خوش رہنا ہے تو زندگی میں کامیابی حاصل کریں. اور اگر آپ نے ساری زندگی خوش رہنا ہے تو رشتے کمائیں. لیکن اگر آپ نے مرنے کے بعد بھی اپنی خوشیوں کو زندہ رکھنا ہے تو دوسروں کی خدمت کریں”.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments