انسان نہایت دلچسپ ہے


\"lubnaتعلیم صرف کتابوں‌ سے حاصل نہیں ہوتی۔ دنیا خود ایک اسکول ہے اور انسان نہایت دلچسپ۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات سمجھ میں‌ آئی کہ لوگ آپ کو اپنی وہ ہی سائیڈ دکھاتے ہیں جس کی آپ ان کو اجازت دیں۔ اسی لئیے حقیقت میں‌ نہ ہی ہم کسی کو جانتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ ہمیں جانتے ہیں۔ تعلیم مکمل کبھی نہیں ہوتی۔ ہم ہر روز کچھ نیا سیکھتے ہیں۔

ہمارے خاندان میں‌ پہلے تو کوئی ڈاکٹر تھا ہی نہیں۔ ایک مجیب ماموں تھے ویٹنیرین جن کو مذاق میں‌لوگ ڈنگر ڈاکٹر کہتے تھے وہ بھی ان کے پیچھے کیونکہ وہ فوج میں‌ میجر تھے اور غصے کے تیز تھے۔ جانوروں‌کے ڈاکٹر کی اہمیت کوئی سمجھتا ہی نہیں تھا۔ جہاں‌ انسانوں‌کے مسائل سمجھے اور حل نہیں‌ کئے جا رہے ہوں ‌وہاں‌ جانوروں‌ کے لئیے کون کھڑا ہو؟ مڈل کلاس کے تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ٹونے ٹوٹکے، حکیمی اور رنگ و روشنی سے علاج کراتے تھے۔ فارمیسی کی دواؤں سے وہ گھبراتے تھے۔ بچپن سے ہی میں ‌سنتی تھی فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیں‌، ان کے ہاتھ میں‌ شفا ہے۔ تو شفا کا تصور ایسے ہی تھا میرے ذہن میں جیسے کہ کوئی جادوئی سفید روحانی چیز آسمان سے زمین پر نازل ہورہی ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ آہستہ آہستہ کتابیں پڑھیں، مریض دیکھے، دنیا دیکھی۔ اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ اگر آپ کے دماغ میں ‌انفارمیشن ہے اور دل میں‌اپنے مریضوں‌کے لئیے انسانی ہمدردی تو ہاتھ میں‌ شفا خود بہ خود ہی آ جائے گی۔

الائزا ہماری بلی ہے۔ الائزا کو ساری ویکیسنیں‌ لگی ہوئی ہیں۔ جو سال میں‌ ایک مرتبہ لگنی ہوں وہ ہر سال لگوا لیتے ہیں۔ اس کا سال میں‌ ایک مرتبہ پورا چیک اپ بھی ہوتا ہے۔ حال ہی میں الائزا کے دانتوں‌ کا چیک اپ اور ان کی صفائی ہوئی۔ اس پروسیجر کے لئیے اس کو بے ہوشی کی دوا دے دی گئی تھی تاکہ وہ تکلیف محسوس نہ کرے۔ اس کے بعد اس کو اینٹی بایٹک کے ڈراپ ایک ہفتہ پلانے تھے تاکہ انفکشن سے بچت ہو سکے۔ الائزا کے ٹیوب ٹائٹ ہیں یعنی کہ اس کی اچھی صحت اور زندگی کے لئیے اس کے بچے بند ہیں۔ الائزا ایک ملکہ صاحبہ کی طرح‌ زندگی گذار رہی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو انسانوں‌ سے چھین لی گئی ہے۔ اور ہم کچھ نہیں‌ کرسکتے۔ وہ انسان صرف اپنی مدد خود کرسکتے ہیں۔ ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک خاتون واپس آئیں تو میں نے پوچھا آپ نے دوا لینا شروع کی اور وہ کیسی چل رہی ہے؟ تو انہوں‌نے کہا نہیں میں‌نے وہ دوا نہیں ‌لی بلکہ یہ والی لے رہی ہوں۔ انہوں‌نے دو بوتلیں اپنے بڑے سے بیگ میں‌سے نکال کر دکھائیں۔ ان پر چائنیز میں‌کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں‌نے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ ان بوتلوں میں‌کیا دوائی ہےِ؟ تو انہوں‌نے کہا نہیں ‌مجھے کچھ آئیڈیا نہیں ‌ہے کہ اس میں ‌کیا ہے لیکن مجھے اپنے چینی ڈاکٹر پر بہت بھروسہ ہے، اس کی بیوی بھی یہ دوا لے رہی ہے تو یقیناً یہ اچھی دوا ہوگی۔ میں‌ نے ان سے دو چار اور سوال کئیے مثلاً وہ کیسے کام کرتی ہے؟ اور اس کو لینے والے مریضوں کا کچھ ڈیٹا موجود ہے جس سے ہمیں ‌پتا چلے کہ یہ وہ کام کر بھی رہی ہے کہ نہیں‌ جس کے لئیے ہم اسے لے رہے ہیں؟ اس دوا کے سائڈ افیکٹ کیا ہیں؟ اور دوسری کن دواؤں کے ساتھ اس کو لینا مناسب نہیں‌ ہو گا؟ لیکن ان کو نہ تو یہ باتیں‌ معلوم تھیں‌ اور نہ ہی انہوں‌ نے ان جوابات کو کریدنے کی ضرورت محسوس کی۔ انہوں‌ نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کام کرنے والی دوا کو چھوڑ کر یہ بلائنڈ علاج کرنے کو فوقیت دی تھی۔ اس تجربے سے مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ دنیا کو دیکھنے کے دو مختلف طریقے ہیں ‌ایک یونیورسٹی والا جس میں‌ چارٹ اور گراف اور ڈیٹا سے بتا رہے ہوتے ہیں‌کہ دوا کا کیمیکل اسٹرکچر کیا ہے، وہ کس طرح کام کرتی ہے، اس کو لینے والے مریضوں‌ میں‌ دوا لینے سے کیا فرق پڑا اور اس کے ممکن سائڈ افیکٹ کیا ہیں‌ اور ایک دوسرا نقطہ نظر ہوتا ہے جو زیادہ معلومات سے گھبراتا ہے اور اپنی آنکھوں ‌پر پٹی باندھ کر خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔

کبھی کبھار آپ کسی سے ایسی بات سنتے ہیں‌جو برسوں تک یاد رہ جاتی ہے۔ ایک مرتبہ وی اے ہسپتال میں‌ ایک خاتون کو دیکھا، وہ تھائرائڈ کے ٹیومر کی بایوپسی کروانے آئی تھیں۔ کہنے لگیں ‌کہ جیسے جیسے انسان کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے تو زندگی ہمیں‌ چیزیں‌ دینا کم کرتی جاتی ہے اور انہیں واپس لینا شروع کرتی ہے۔ یہ انسانی المیہ ہے اور اس سے نبٹنے کے لئے دنیا کے مختلف لوگوں ‌نے مختلف جوابات تصور کئے ہوئے ہیں۔

وقت ہمیشہ ایک سا نہیں‌ رہتا۔ کل واپس نہیں  آ سکتا۔ ہم کل کو آج نہیں ‌جی سکتے ہیں۔ ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے جو نئے سوال لاتا ہے اور ان سوالوں‌ کے لئے نئے جواب ڈھونڈنے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بوڑھے پروفیسر تبدیل نہیں‌ہوتے بوڑھے پروفیسر مر جاتے ہیں۔ اگر 10 افراد سے کہا جائے کہ آپ بدل جائیں ورنہ آپ کو جان سے مار دیا جائے گا تو ان میں‌سے صرف ایک انسان بدلے گا۔ تبدیلی لانا اس قدر مشکل کام ہے۔

ایک بار مجھے ہسپتال میں‌ایک مریضہ کے لئیے کانسلٹ کیا گیا۔ وہ اب مر چکی ہیں ‌لیکن جب میں ‌ان کو دیکھنے گئی تو وہ کمپیوٹر پر کلاس لے رہی تھیں۔ کہنے لگیں ‌کہ پچھلے کئی سال سے میں ‌سخت بیمار ہوں ‌اور جاب نہیں ‌کر سکتی ہوں۔ میری تعلیم ادھوری رہ گئی تھی اور میری بڑی خواہش تھی کہ کالج کی ڈگری مکمل کر سکوں ‌تو اب میں اپنے فارغ وقت میں‌ یہ آن لائن کلاسیں ‌لیتی ہوں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ ان کا خود کو اپنے آپ کو اسی طرح‌ ذہنی طور پر مصروف رکھنا ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اتنا عرصہ زندہ رہیں۔ اگر ہاتھ پیر چھوڑ دئیے ہوتے تو کئی سال پہلے ہی دنیا سے گزر گئی ہوتیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا 18 سال کا تھا۔ ٹین ایج ہر بچے کی زندگی میں‌ایک مشکل وقت ہوتا ہے اور اچھا ہوا کہ وہ اس وقت میں‌ جتنا ہوسکا اس کے لئے دنیا میں موجود رہیں۔

ایک چھوٹے سے بالوں‌والے دبلے فیمیل ٹو میل ٹرانس جینڈر کو دیکھا جو اپنی ماں‌کے ساتھ آیا تھا۔ وہ بولا کہ میں‌ایک لڑکا ہوں جو کہ مجھے بچپن سے معلوم ہے۔ میں‌ایک جھوٹ کے ساتھ زندگی نہیں ‌گزار سکتا ہوں۔ مجھے اس چہرے اور جسم سے نفرت ہے جو میرے زہن سے متضاد ہے۔ وہ اپنی جنس تبدیل کروا رہا ہے۔ میں‌نے اس کی ماں ‌سے پوچھا کہ آپ کا اس بارے میں ‌کیا خیال ہے تو وہ بولیں‌ میں ‌اور اس کے والد اس بات کو نہیں ‌سمجھ سکتے ہیں‌ لیکن جس میں‌ ہماری اولاد کی خوشی اور بہتری ہو ہم اس میں‌ اس کو سپورٹ کریں ‌گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments