انسانی اعضا کا عطیہ: ایک نیا زاویہ نظر


\"Irfanبعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ انسان اپنے جسم کے اعضاء کا عطیہ نہیں کر سکتا، انسان اپنے جسم کا مالک نہیں کہ اس کے ساتھ جو مرضی چاہے کرے۔ یہ جسم خدا کی امانت ہے، جس میں وہ خدا کی مرضی کے بغیر تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ نیز، اگر انسان کا اپنے جسم پر کوئی اختیار ہوتا بھی ہے تو بعد از مرگ برقرار نہیں رہتا، چنانچہ آدمی کی اپنے اعضاء کے عطیہ کرنے کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

میں کوئی فقیہ نہیں، جو فقہی موشگافیوں میں پڑوں۔ لیکن میری غیر فقہی رائے میں مسئلہ کی نوعیت سادہ اور اس کا حل اور بھی سادہ ہے۔ ممکن ہے اس کو اتنا سادہ سمجھنے کی وجہ میری سادگی ہو، تاہم میں یہاں اپنی طالب علمانہ رائے پیش کر دیتا ہوں، مناسب معلوم ہو تو اپنا لیجئے، کوئی کمی ہو تو واضح فرما کر ممنون کیجئے، غلط ہے تو آگاہ کیجئے۔

عرض یہ کہ انسان کو اس دنیا میں عطا ہونے والی تمام چیزیں خدا کی نعمت اور اس کی امانت ہیں۔

\”اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔\” (سورہ النحل، آیت 18)

دیگر نعمتوں کی نسبت انسان کا جسم اور مال اس کے زیادہ قریب (ذاتی یا  personal) اور اس کے تصرف کا زیادہ محلّ بنتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح انسان کو اس کے مال میں ایک حد تک حق تصرف حاصل ہے، اسی طرح اسے اپنے جسم میں بھی ایک حد تک حق تصرف حاصل ہے۔ جس طرح مال سے حاصل ہونے والی منفعت کو لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا خدا کی خوشنودی کا سبب ہے، اسی طرح انسان کے جسم کے ذریعے ممکنہ منفعت کو بھی لوگوں تک پہنچانا خدا کی خوشنودی کا سبب ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ باوجود استطاعت رکھنے کے دوسروں کی مالی مدد سے پہلو تہی برتنے کو بخل اور نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے:

\”اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اُس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں \”کیا ہم اُن کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو\” (سورہ یٰسین آیت 47)

یہی حکم جسم کی منفعت کا بھی ہے، یعنی جہاں آپ کے جسم کا کوئی عضو کسی کی جان بچانے کے کام آ سکتا ہو، وہاں پہلو تہی کرنا اور یہ عذر پیش کرنا کہ یہی اللہ کی مرضی تھی کہ کوئی انسان گردے، دل، وغیرہ کی خرابی سے اگر مر رہا ہے تو مرے کہ ایسا اس کی قسمت میں لکھا تھا، درحقیقت، بخل کی اِسی نفسیات کا شاخسانہ ہے، اگر کم علمی اس کی بنیاد نہ ہو تو۔

\"Edhi سائنس نے ترقی کی تو اس کی بدولت مال اور جسم کی منفعت کے امکان کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ مال کی نئی منفعتیں تو سمجھ آ گئیں، لیکن جسم کی یہ نئی منفعت کہ انسانی جسم اعضاء سے دوسرے انسان بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بعض لوگوں کو سمجھ نہ آئی، اور انہوں نے یہ غلط مقدمہ قائم کر لیا کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں اس لیے اپنی مرضی سے حق تصرف نہیں رکھتا، اس لیے اعضاء عطیہ نہیں کر سکتا۔ یہ بات تو درست ہے کہ انسان خدا کی مرضی کے خلاف اپنا جسم تو کیا اپنے مال میں بھی حق تصرف نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں کہ انسان کا اپنے مال کے عطیے کی طرح دوسروں کی بھلائی کے لیے اپنے جسم کا عطیہ کرنا خدا کی خوشنودی کے خلاف ہو سکتا ہے۔ سوچئے کہ ایک انسان اگر دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان تک دینے کا حق تصرف اپنی جان پر رکھتا ہے تو دوسروں کی جان بچانے اور ان کی بھلائی کے لیے اپنے اعضاء کسی کو عطیہ کرنے کا حق کیوں نہیں رکھتا۔ یعنی آدمی پوری جان قربان کر کے کسی کا بھلا کرے تو جائز، بلکہ شھادت کے بلند درجے کا مستحق بھی، لیکن یہی آدمی اگر اپنی جان کا کوئی حصہ دے کر دوسرے کی بھلائی کرنا چاہے تو یہ ناجائز ٹھہرے، یہ غیر معقول بات معلوم ہوتی ہے۔

اگلی بات یہ ہے کہ اگر انسان کی وصیت اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کی مفنعت کے نفاذ میں نافذ العمل ہو سکتی ہے تو اسی انسان کی وصیت اس کے جسم کی منفعت سے متعلق بھی نافذ العمل ہو سکتی ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ بعد از مرگ انسانی جسم کے اعضاء نکالنے کے لیے چیرنا پھاڑنا مُثلہ کے حکم میں آتا ہے، جو کہ حرام ہے۔ مُثلہ کا مطلب ہے دشمن کے مردہ جسم کی بے حرمتی کرنا، اس کے اعضاء کاٹنا، اعضاء نکالنا، جسم کو مسخ کرنا وغیرہ۔ ایسا عمومًا جنگوں میں اظہارِ نفرت کے لیے ہوتا تھا، اور اب بھی کبھی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ رائے قلّت تدبر کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی جسم کو آپریشن اور سرجری کے لیے بھی چیرا، کاٹا جاتا ہے، اور اس کے جواز میں کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ جسم کو چیرنے پھاڑنے کے مقصد اور طریقہ کار کے فرق سے حکم بدل دیتا ہے۔ مُثلہ کا مقصد بے حرمتی کرنا ہے، جب کہ سرجری اور اعضاء کے عطیے کے لیے جسم کو کاٹنا، کھولنا تاکہ جسم کی ممکنہ منفعت کو دوسرے کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے، بالکل الگ معاملہ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مال و دولت کو بلا ضرورت لُٹانا یعنی اسراف کرنا حرام ہے، لیکن اسی مال کو دونوں ہاتھوں سے اللہ کے راستے میں انسانوں کی بھلائی کے لیے خرچ کرنا، یہاں تک کے ضرورت سے زائد سارا ہی مال خرچ کر دینا، اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے سے انسانی جسم کو بھی کمرشلائز کرنے کی راہ کھل گئی ہے، جو انسانی جسم کی تکریم کے خلاف ہے۔ اس پر عرض ہے کہ اب تو ماں کا دودھ تک کمرشلائز کر دیا گیا ہے۔ تو کیا اب اسے بھی مطلقا حرام قرار دے دیا جائے؟ کسی چیز کا غلط یا بے جا استعمال، بنفسہ اس چیز کے غلط ہونے کو مستلزم نہیں ہوتا۔

ان سب معروضات کے بعد بھی اگر کچھ لوگ انسانی اعضاء کے عطیے کے عدم جواز کے قائل ہیں تو وہ یہ لکھ رکھیں کہ عدم جواز کے اس فتوے کی عمر اب ختم سمجھیے۔ جس طرح لاؤڈ سپیکر، کیمرہ، ٹی وی، تصویر اور ویڈیو کے استعمال کی حُرمت کے فتاوی کے علی الرغم ان چیزوں نے اپنے وجود کی افادیت اہل افتاء سے منوا لی اور آج کوئی مولوی، مفتی اور خطیب ان چیزوں سے بے نیاز نہیں رہا، اسی طرح انسانی اعضاء کے عطیے کے عدم جواز کا فتوی بھی جلد ہی اپنی موت آپ مر جائے گا۔ جب عدم جواز کے قائلین کے، خدانخواستہ اپنے اعزاء اور اقرباء کی زندگی بچانے کے لیے انسانی اعضاء درکار ہوں گے، تو خود ان کے اپنے لوگ عدم جواز کے فتویٰ کو پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیں گے، بلکہ عملًا ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر جواز کی تانیں بلند ہوں گی اور عدم جواز شکست خوردہ فریق کی طرح پہلے طعن و تشنیع کا مظاہرہ کرے گا اور پھر جمہور کے فتویٰ کے جھڈنے تلے ان سے ہم آہنگ ہو جائے گا۔

عدم جواز کا فتویٰ تاریخ کے اوراق میں اپنے زمانے سے بے خبر اہل افتاء کے تدبر و تفقہ کے ثبوت کے طور پر ثبت ہو جائے گا۔ یہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی یہی ہوگا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے، جتنا جلد اسے پڑھ لیا جائے، اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments