جہاد، جنگ، تنخواہ، شہادت اور مائیں


\"saleemہم یعنی میرے علاقے کے لوگ مفت میں جنگیں نہیں لڑتے۔ تنخواہیں لے کر لڑتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم لے کر کارگل تک اور ملک کے اندر پہلے دن سے لے کر ضرب عضب تک ہر جنگ اور ہر ہنگامے میں ہم باوردی، ڈنڈا یا بندوق تھامے موجود تھے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ جنگ کرنا کوئی فخر یا خوشی کی بات نہیں ایک مجبوری ہوتی ہے۔ اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری مجبوری تنخواہ سے زیادہ شاید ہی کبھی تھی۔ ہماری تو ایک کہاوت بھی مشہور ہے \”نس او گرائیاں نس تنخواہواں جیوندیاں دیاں نیں (یعنی جنگ کے دوران ایک سپاہی خود بھاگا اور دوسرے کو پکار کر کہا کہ بھاگ اوئے دوست بھاگ کہ تنخواہیں تو صرف زندہ لوگوں کو ملتی ہیں)\”۔

ہمیں کبھی بھی نظریات یا سرحدوں اور آزادی کی حفاظت کے لئے کوئی جنگ نہیں لڑنا پڑی۔ ہم تنخواہ اور پنشن کے باقاعدہ کنٹریکٹ کے بغیر کبھی جنگ لڑنے کے لئے تیار بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اس بات کا ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے بچے اور نوجوان نام نہاد جہاد سے دور رہے اور افغانستان اور کشمیر کی بھٹیوں کا ایندھن بننے سے بچ گئے۔ پچھلے 35 سال سے جاری اس پاگل پن اور جنونی کھیل میں ہمارے علاقے کے لوگوں کی اموات، جنہیں لوگ اب شہادت کہتے ہیں، کی گنتی کی چند خبریں ہی آئی ہوں گی اور وہ بھی صرف پچھلے دس برس میں۔ اس سے پہلے زیادہ تر خیریت ہی رہی۔ ہمارے نوجوان جہاد کے تربیتی مرکزوں کی بجائے فوج کے ریکروٹمنٹ سنٹروں کے باہر ہی قطار اندر قطار حاضر ہوتے رہے اور ملک کی خدمت کے حلف اٹھاتے اور پھر انہیں پورے بھی کرتے رہے۔ کچھ زخمی ہوئے، کچھ شہید اور باقیوں کو بخیریت پنشن نصیب ہوئی۔

کوئی دس بارہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ جہادی تنظیم کو ہمارے علاقے میں کامیابی ہوئی اور ہمارے ساتھ کے گاؤں کا ایک نوجوان اچانک غائب ہو گیا۔ جہاد میں شمولیت کی طرف تو کسی کا دھیان ہی نہیں گیا کیونکہ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا لہٰذا گم شدہ نوجوان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ چند مہینوں کے بعد کچھ مذہبی قطع برید کے لڑکے اس کی \”شہادت\” کی خبر لے کر آئے اور علاقے میں طوفان مچ گیا۔ انہوں نے تسلی دینے کی بجائے مرنے والے نوجوان کی بہادری کے قصے سنائے اور اس کے گھر والوں کے لئے بخشش اور جنت کی خوش خبری بھی دی۔ یہ بھی بتایا کہ نوجوان کی بہادری اور \”شہادت\” کا جشن منانے کے لئے کچھ بڑے جہادی علامہ صاحبان بذات خود میت کو گاؤں لانے اور جنازے میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بات کو بہت مشہور کرنے کی کوشش کی گئی۔ مارکیٹنگ کے سارے گر آزمائے گئے اور جب میدان تیار ہو گیا تو میت کو گاؤں لایا گیا۔ اور اسے ایک ہیرو کا سا پروٹوکول دینے کی ساری کوششیں کی گئیں تاکہ علاقے کے باقی بے روزگار نوجوانوں کو ترغیب ملے۔ گاؤں میں آنے والی سڑک کا نام اس نوجوان \”شہید\” کے نام پر رکھ دیا گیا اور اس کا ایک سستا سا سائن بورڈ بھی ثبوت اور اشتہار کے طور پر لگا دیا گیا۔ جہادی ملا اور ان کی سپاہ واپس چلے گئے اور اپنے پیچھے ایک بے سکونی اور خوف کی فضا چھوڑ گئے۔ زیادہ تر لوگوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور اپنے نوجوان لڑکوں کی فکر پہلے سے زیادہ شروع کر دی۔ اپنے بچوں کو اس جنون سے بچانے کی باتیں کچھ دن ہر محفل کا حصہ رہیں۔ حالات آہستہ آہستہ نارمل ہو گئے۔

یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اس واقعہ کا علاقے پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ زیادہ خطرہ ان نوجوانوں کے لئے تھا جو اپنے جوہر کہیں دکھا نہیں پا رہے تھے۔ مواقع کم ہونے کی وجہ سے مایوس تھے اور راتوں رات کچھ بن کے دکھانا چاہتے تھے۔  سڑک کے شروع میں نام کی تختی اور بہادری کے قصے ہر محفل میں، مایوس نوجوانوں کے لئے خودکشی کا کافی \”با عزت\” طریقہ دریافت ہو چکا تھا۔

میرے گاؤں کے ایسے ہی دو نوجوان دوست جو آپس میں کزن بھی تھے اور کچھ عرصے سے بے روزگاری کی وجہ سے حالات سے تنگ تھے، ایک دن گاؤں سے غائب ہو گئے۔ اب سب لوگوں کا دھیان سب سے پہلے نام نہاد جہاد ہی کی طرف گیا۔ ہر طرف ڈھنڈیا پڑی۔ ان دونوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ یہ فوجی علاقے کا گاؤں ہے اور فوجی وسائل سے بھرپور ہے۔ فوج کے ہر لیول پر اتنے تار (سٹرنگ) ہلائے گئے بلکہ جھنجھوڑے گئے کہ چھیانوے گھنٹوں سے پہلے اس ٹریننگ کیمپ تک رسائی ہو گئی جہاں ہمارے نوجوان موجود تھے۔ دونوں کی مائیں کچھ اور مرد رشتہ داروں کے ہمراہ ٹریننگ کیمپ کے گیٹ پر تھیں۔ کیمپ کے سربراہ نے تھوڑی ادھر ادھر کی ہانکی اور کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں آپ شہید کی مائیں بنیں گی اور سیدھی جنت میں جائیں گی۔ دونوں ماؤں نے یک زبان ہو کر کہا \”تم اپنی جنت رکھو اپنے پاس ہمیں تو اپنے بچے زندہ سلامت واپس چاہییں\”۔ بہت بڑے فوجی افسر کی سفارش تھی کہ جہادی کیمپ کے انچارج کو بچے واپس کرنے پڑے اور ماں کے پیار کی طاقت تھی کہ نوجوانوں نے \”جہاد اور شہادت\” کا ارادہ ترک کیا اور گھر کو لوٹے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments