کھدمت کرنے والا بھی کافر؟


\"khawarکچھ عرصہ پہلے ایک انگریزی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کہانی یہ تھی کہ سن انیس سو پینتالیس کا زمانہ ہے، ایک ماں ، گریس، اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک بڑے سے ڈراونے گھر ( جو خوفناک فلموں کا لازمی جزو ہوتے ہیں) میں رہتی ہے۔ اس کے بچوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ دھوپ نہیں برداشت کر سکتے۔ چنانچہ ملازموں کو خاص ہدایات دی جاتی ہیں کہ دن کے وقت گھر کی کھڑکیوں کے پردے ہمیشہ برابر ہوں تا کہ سورج کی روشنی اندر نہ آ سکے۔ خاوند اس کا فرانس میں جنگ لڑنے گیا ہوتا ہے۔ ایک دن تمام ملازم نوکری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور گھر میں کچھ غیر معمولی نقل و حرکت شروع ہو جاتی ہے ۔ گریس اور اس کے بچوں کو ”بھوت“ نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک اندھی عورت بھی شامل ہوتی ہے جو خاص طور پر گریس کی بیٹی کو نظر آتی ہے۔ کچھ دن گریس صبر کرتی ہے مگر ایک دن اسکی بس ہو جاتی ہے۔ رات کو بھوت لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہیں، درمیان میں شمع جلاتے ہیں، اس اندھی عورت کے ہاتھ میں قلم اور کچھ کاغذ ہیں ، وجد طاری ہے، وہ کاغذوں پر کچھ لکیریں کھینچتی ہے اور گریس کے بچوں سے مخاطب ہو جاتی ہے ۔ کہتی ہے کہ تم لوگ مر چکے ہو ، پھر یہاں اس گھر میں کیوں رہتے ہو؟ بچے چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں ہم زندہ ہیں ۔ آخر گریس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور وہ میز کو زور زور سے ہلا کر کہتی ہے کہ چلے جاو تم سب یہاں سے اور وہ سارے کاغذ اس عورت کے ہاتھ سے کھینچ کر اور پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ اس موقع پر کیمرے کی آنکھ یہ دکھاتی ہے کہ میز خودبخود ہلنے لگتی ہے اور کاغذ اپنے آپ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ پتہ یہ چلتا ہے کہ اصل میں گریس اور اسکے بچے مر چکے ہیں۔ بھوت وہ لوگ نہیں جو میز پر بیٹھے ہیں بلکہ گریس اور اسکے بچے ہیں۔ گریس اپنے بچوں سمیت خودکشی کر چکی ہوتی ہے مگر وہ اسے ایک خوفناک خواب تصور کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ وہ زندہ ہے۔

غور کریں تو کیا ہم اس کہانی پر پورا نہیں اترتے؟ کیا ہم سب میں سے ہر دوسرا بندہ گریس نہیں ہے جو اپنے ضمیر اور اپنی عقل کے ساتھ خودکشی کر بیٹھا ہے اور پھر بھی زندہ ہونے کا راگ الاپ رہا ہے؟ کیا ہم میں سے بیشتر، مرد خواہ عورت، صرف اپنے آپ کو ہی انسان نہیں سمجھتے؟ اور دوسروں کو کوئی بھی اور مخلوق؟ تو ہم سب بھوت ہی تو ہیں۔

گریس کا بھوت !

عمومًا بھوت دوسروں کو دکھائی نہیں دیتے لیکن اپنے آپ کو بہرحال دیکھ سکتے ہیں اس کے برعکس ہم میں سے اکثر اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو دوسروں کو تو دکھائی دیتے ہیں مگر اپنا آپ نہیں دیکھ پاتے، اپنے اندر جھانک نہیں سکتے۔ وہ یہ احساس نہیں کر پاتے کہ وہ انسان نہیں رہے اور مکمل بھوت بن چکے ہیں۔ کچھ صاحبان علم بھوت ہوتے ہیں ، آگے دیکھا نہ پیچھے، جھٹ سے اگلے کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔ کسی کم عمر کو نوبل انعام مل جائے تو کہتے ہیں اونہہ غلط دے دیا بھئی، اس کو دیتے، وہ بوڑھا جو لوگوں کی کھدمت کرتا ہے۔ پھر جب اس بوڑھے کے بارے میں کوئی بات کرے تو کہتے ہیں نہ جی نہ، وہ تو ملحد اور کافر ہے۔ کھلاڑی میچ جیت جائیں تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ہار جائیں تو انہی آنکھ کے تاروں کو جوتے مارنے سے نہیں چوکتے۔ اپنے بیٹے کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو لڑکی بیچاری کا ناک نقشہ، چال ڈھال ایسے دیکھتے ہیں جیسے عید قرباں کے لیے جانور پسند کرنا مقصود ہو، یہیں کوئی ان کی بیٹی کو دیکھنے آ جائے اور ایسی حرکات کا مرتکب ہو تو کہتے ہیں، کمال ہے جی! لوگوں کی آنکھوں میں شرم نہیں رہی۔ کچھ میڈیاوی بھوت ہوتے ہیں۔ جو دل کرتا ہے چلا دیتے ہیں ۔ یہ بھوت صرف ” آو“ دیکھتے ہیں اور شائع کر دیتے ہیں ، پھر اگر کوئی ردعمل آئے تو ” تاﺅ“ کھا جاتے ہیں۔ سیاسی بھوت بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہی ہوں گے۔

اب کہانی کے دوسرے رخ کی طرف آئیں۔ اگر ان بھوتوں کو کوئی نیک وجدانی اندھا یا تعصب، شاطری، عیاری، ظاہرداری اور ظلم کی بینائی سے نابینا پوچھ بیٹھے کہ سائیں تم تو مر چکے ہو، یہاں کیا کر رہے ہو؟ تو پھر یہ بھوت چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہم مرے نہیں ہیں۔ اور پھر اس اندھے کو بھوتوں کی طرح ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیتے ہیں یا مار مور کر مکو ہی ٹھپ دیتے ہیں۔ پھر سے بھوتوں کا راج ہوتا ہے۔ مٹی کے بھوتوں کا۔

 

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments