ایدھی اور ہمارا تعلیمی نصاب


بلال رائد

\"‌Bilalپچھلے کئی دنوں سے سوشل اور ان سوشل میڈیا پر \”ایدھی بنو، ایدھی بنو\” جیسے بلند لیکن کھوکھلے نعروں کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ میں تب سے خود کو ایک عجیب مخمصے کا شکار محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی \”نصاب\” کے نام پر سولہ سال تک سکولوں اور کالجوں میں جو \”نفرت\” ہمیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے اُس کے ہوتے ہوئے ہم \”ایدھی\” کیسے بنیں۔ یہ نصاب ہمیں ممتاز قادری تو بنا سکتا ہے، ایدھی ہرگز نہیں۔ یہ تو ایدھی صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ اُنہیں کبھی کسی سکول یا کالج جانے کا موقع نہیں ملا ورنہ وہ بھی آج شاید \”ایدھی\” نہ ہوتے۔ اگر دیکھا جائے تو نفرت کے یہی بیج ہمارے نصابی کورسز کا لازمی جُزو ہے کیونکہ اسی کے تناظر میں ہی ہمیں تعصب کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ آپ اپنی اسلامیات کی کتاب کھول کر دیکھ لیجئیے جہاں بچوں کو شروع دن سے ہی یہود و نصاریٰ سے نفرت کے الاؤ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی کئی نسلیں انہی بےجا نفرتوں کے بیچ جوان کر چکے ہیں اور مزید کرنے بھی جا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں اسلامیات کا ہر اُستاد بڑے زور و شور سے کلاس رُوم میں یہود و نصاریٰ کو \”اسلام دُشمن\” قرار دیتا ہے۔ یوں غیر مسلموں سے بدظنی ابتدا میں ہی بچوں کے ناتواں ذہنوں میں ٹھونس دی جاتی ہیں۔ مذہبی صحائف کو پس منظر سے جُدا کر کے اور خودساختہ تشریحات کے ذریعے ان معصوم بچوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کرنا تاحال قوم کے ان معماروں کا محبوب مشغلہ ہے۔

نفرت کی بچی کچی کسر معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں پوری کی جاتی ہے، جہاں مسلمانوں کی ہر دوسری ناکامی ہندوؤں کی جھولی میں ڈال دی جاتی ہے۔ اُن کے مذہب کو مسلسل تضحیک کا نشانہ بنا کر اُنہیں دُنیا کی پست ترین قوم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ایسی نصابی کتابوں میں پاکستان کے مسائل پہ بحث کم، جبکہ پڑوسی ممالک کی سازشوں پہ روشنی زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ یہاں جس نفرت کا اثر معصوم بچے لیتے ہیں، وہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر دو بچے روزمرہ بول چال میں بھی ایک دوسرے کو ہندُو یا سکھ کی \”گالی\” دے دیتے ہیں تو نوبت لڑائی جھگڑے تک ضرور پہنچ جاتی ہے۔ ایسے کئی مشاہدے ہمارے معاشرے میں باآسانی کیے جا سکتے ہیں۔ ہم اپنی نسلوں کو سولہ سال تک زہر پلا کر آخر میں اُن سے خیر کی توقع ہرگز نہیں کرسکتے۔ ایسے نصاب کے ہوتے ہوئے ایدھی بنانا تو درکنار، ہم ایک مثبت سوچ رکھنے والے پاکستانی تک نہیں بنا سکتے۔ سونے پہ سہاگہ ہم ایک ایسے کنفیوزڈ قوم کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں جو چند دن پہلے ممتاز قادری کا ماتم کررہے تھے، اور آج ایدھی صاحب کی وفات پہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔

کچھ سال پہلے ایک شخص ایدھی صاحب سے پوچھا کہ \”آپ کی ایمبولنسز ہندوؤں اور عیسائیوں کی مدد آخر کیوں کرتیں ہے\”۔ ایدھی صاحب نے جواب دیا \”کیونکہ میری ایمبولنس تُم سے زیادہ مسلمان ہیں\”۔ امریکہ میں قطرینہ طوفان ہو یا نیپال میں زلزلہ زدگان، خلیجی ممالک کی جنگوں میں متاثرین کی بحالی ہو یا پھر غلطی سے پاکستانی سرحد پار کر کے آنے والی گیتا نامی ایک گونگی بہری بچی کو اپنے وطن واپس بھجوانے کا انتظام، ایدھی صاحب جذبہ انسانیت کے تحت ذات، رنگ، نسل اور مذہب سے ہمیشہ ماورا ہو کر ہر کسی کی مدد کے لئے پہنچ جایا کرتے تھے۔ مجھے اُن کے جذبہ انسانیت کے پیچھے چھُپے ڈھیر سارے رازوں میں سے ایک قوی راز یہی نظر آرہا ہے کہ وہ کبھی پاکستان کے زہر آلودہ نصاب کے ہتھے نہیں چڑھے تھے۔

میں نے ایدھی صاحب کو پہلی بار 2007ء میں آمنے سامنے دیکھا تھا۔ وہ پشاور کے ایک مصروف شاہراہ پہ بیٹھے سخت دُھوپ میں سوات کے آئی۔ڈی۔پیز کے لئے بھیک مانگ رہے تھے۔ مجھے ڈھلتی عُمر کے باوجود مائیک ہاتھ میں پکڑے اُن کو اس قدر متحرک پانا بہت مسحور کُن لگا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے میں اُن کے پہلو میں بیٹھ کر گھنٹوں اُنہیں دیکھتا رہا تھا۔ ہر کسی سے بے نیاز ایدھی صاحب بس ایک ہی تھے۔ یہ دھرتی بانجھ نہیں، لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ نصاب میں تبدیلی کیے بغیر بادی النظر میں ایدھی جیسے \”انسان دوست\” پیدا کرنا دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments