دیوارِ قہقہہ
دیکھو دیکھو!!
اوپر سے نیچے تک دیکھو
آگے سے پیچھے تک دیکھو
جنگل اور پہاڑ سے لے کر
گھر کے باغیچے تک دیکھو
چڑیا، باز، ہما اور ققنس
ہر پنچھی کی بینائی سے
حدِ فلک کی پہنائی سے
اُڑتے غالیچے تک دیکھو
شہروں میں، دیہات میں دیکھو
دن میں دیکھو، رات میں دیکھو
رستوں کے اطراف میں دیکھو
گدلے میں، شفاف میں دیکھو
اندر دیکھو، باہر دیکھو
پوشیدہ یا ظاہر دیکھو
دنیا کی اوقات میں دیکھو
اپنی اپنی ذات میں دیکھو
دیکھو دیکھو!!
اُس نادید کو ہر سُو دیکھو
کچھ بھی نظر نہ آئے جب تو
اک تجرید کو ہر سُو دیکھو
اور دیکھتے دیکھتے خوب ہنسو!!!
Latest posts by نصیر احمد ناصر (see all)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).