ماشٹرنی کا پرس


\"asifہمارے خاندان میں گفتگو کا موضوع بدل گیا۔

یہ کیسے ہوا اور کب ہوا، پتہ ہی نہیں چلا۔ یک لخت تو نہیں بدلا ہوگا۔ اب سوچتا ہوں تو تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ مگر یہ فرق ماشٹرنی کا پرس چھن جانے کے بعد سامنے آیا۔

اب یہ باتیں آج کل کے بچّوں کو بھی عجیب سی معلوم ہوں گی، کسی اور زمانے، کسی اور زمین کی باتیں۔ مگر ہمارے لیے تو یہ روزمرہ کی عام سی باتیں تھیں اور سب کے مل بیٹھنے پر یہی تذکرہ چھڑ جاتا تھا۔

اصل میں میرے چچا پُھپھیاں جب اکٹھا ہو جاتے تو ان کی باتوں سے نکل کر بہت سارے لوگ بن بلائے مہمانوں کی طرح محفل میں شریک ہو جایا کرتے۔ پہلے تو ایسی محفلیں روز کی بات تھیں، پھر ان کے لیے بہانے ڈھونڈے جانے لگے اور اب یہ محض خیال و خواب بن گئی ہیں۔ نقلیں، چُہل، مزاحیہ اشعار، فقرے بازی یہ ان محفلوں کا خاصہ تھی اور میرے والد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بڑھاوا دیتے کہ ہاں، وہ فلاں بات ہو جائے۔ میرے چچا انور احسن صدیقی ان میں نمایاں تھے ۔ وہ اخبار نویس اور صحافی تھے جن کی متانت اور سنجیدگی کا ادبی، صحافتی حلقوں میں، مَیں نے ذکر سنا۔ وہ مزاحیہ نظمیں موقع کی مناسبت سے لکھتے بلکہ ان پر مشتمل پورا مشاعرہ شاعروں کی اپنی آواز میں سنا دیتے۔ ان بہن بھائیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق درس و تدریس سے تھا۔ ابّو یونیورسٹی میں تھے اور یہ لوگ کسی نہ کسی کالج میں۔ میری بڑی خالہ اور خالو یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور چھوٹی خالہ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔

کھانے کے ساتھ گرما گرم گفتگو ہوتی۔ طالب علموں کی نالائقی اور اساتذہ کی ہربڑاہٹ کے قصّے تھے جو ہر بار نیا لطف لے کر سنائے جاتے۔

فلاں کالج کی فلاں ٹیچر نے گرگ باراں دیدہ کا مطلب بارہ آنکھوں والا بھیڑیا بتایا ہے، میرے چچا کہتے۔

بھلا بتائیے، تعلیم کا معیار پست نہ ہو تو اور کیا ہو، ابّو تاسف کے ساتھ کہتے۔ وہ ٹیچر یقیناً ان کی شاگرد رہی ہوں گی۔

’’اور وہ فلاں استاد، کلاس میں داخل ہوکر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کرسی نظر نہیں آئی لڑکوں سے پوچھنے لگے، وہ بیٹھنے کا برتن کہاں ہے؟‘‘ یہ جملہ میری والدہ نے سنایا تھا۔

اس کے بعد ان صاحب کا جب بھی ذکر آتا ان کو ’بیٹھنے کا برتن‘ کہا جاتا۔ یہاں تک کہ مجھے ان کا نام بھول گیا، بیٹھنے کا برتن یاد رہ گیا۔

اور وہ فلاں خاتون جو ہر لفظ میں ’’زیر‘‘ لگا کر بولتی ہیں۔۔۔ اور وہ صاحب جو کلاس میں غالب کی تشریح رجسٹر سے پڑھ کر کہا کرتے \"asifتھے۔ اس طرح کی گفتگو عام طور پر ہوتی رہتی تھی لیکن ان دنوں میں بڑھ جاتی تھی جنہیں ’’امتحانوں کا سیزن‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ امتحانی پرچے، کاپیاں، نمبر، حاضری۔۔۔ یہ سب کبھی نہ ختم ہونے والا ایک موضوع تھے۔ ہر امتحان کے زمانے میں نئے فقرے سامنے آتے۔

ابّو کے ایک دوست چوہدری اظہار صاحب اکثر صدر ممتحن ہوا کرتے تھے۔ وہ کاپیاں جانچنے کے دوران ابّو سے کہا کرتے کہ یونیورسٹی کو چاہیے کہ ہر کاپی پر طالب علم کے رول نمبر کے ساتھ گھر کا پتہ بھی چھپا ہوا کرے۔ یونیورسٹی ایک جیپ اور ایک ہنٹر کا بندوبست بھی کیا کرے۔ جو سارے وقت تیل میں بھیگا رہے۔ جہا ں ایسی فضول کاپی جانچنے کے لیے آئی، جیپ لے کر دوڑے اور جس شخص نے دروازہ کھولا اس کے سٹراسٹر ہنٹر مارنا شروع کر دیے۔ نہ لینا ایک نہ دینا دو۔

ان کی اس برہمی سے سبھی لطف لیا کرتے۔

جہاں یہ ذکر زیادہ ہوا، انورچچا سب کو ٹوک دیتے۔ ’’بس بھٹی یہ ماشٹر ماشٹرنیوں کا تذکرہ بہت ہوگیا۔ اب کوئی اور بات کیجیے۔‘‘وہ کہتے۔

’’بہت نہیں ہوگیا۔ تم خود بھول گئے ہو کہ کبھی پڑھایا بھی کرتے تھے۔۔۔‘‘ ان کو جواب دینے کا حوصلہ صرف خورشید پھپھو کا تھا۔ اسی لیے وہ اکثر ان کے فقروں کا نشانہ بنتی تھیں۔ جو خوش دلی کے ساتھ مگر تواتر سے سامنے آتے رہتے۔

خورشید پھپھو کو کراچی کے ایک کالج میں پڑھاتے ہوئے عرصہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنی ساتھی اساتذہ کا ذکر نہایت عقیدت و احترام سے کرتی \"asif\"تھیں۔۔۔ مس قیوم بانو، مس شمہ تاجدار، مسز بیگ، ایسا لگتا تھا کہ یہ سیدھی سادی خواتین، دیومالائی طاقت کی حامل شخصیات ہیں۔

ایک مرتبہ خورشید پھپھو بہت ہانپتی کانپتی آئیں۔ سانس برابر ہوا تو انہوں نے اطلاع دی، آج کالج سے نکلتے ہوئے فلاں ٹیچر کا پرس کسی نے چھین لیا، انہوں نے نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی۔

وہ تقریباً رو پڑنے کو تھیں۔ ان کی اس رقّت پر انور چچا الٹا ہنس پڑے۔ انہوں نے اس بات کا مذاق بنا لیا۔ ’’اچھی آپا، کیا کسی ماشٹرنی کا پرس چھن گیا؟‘‘ وہ بار بار پوچھتے اور خورشید پھپھو کے چہرے پر ناگوار اور صدمے کا ایک رنگ آتا، ایک رنگ جاتا۔

ماشٹرنی کے پرس کے ساتھ یہ موضوع بھی چلا گیا۔ پہلے یہ باتیں ہوتی تھیں کہ طالب علموں کا شوق پست ہوتا جا رہا ہے، اساتذہ محنت نہیں کرتے۔ ان سب کے گھروں میں لوگ برابر کچھ نہ کچھ پوچھنے کے لیے آتے رہتے، طالب علم جمع رہتے۔ پڑھائی کی اور نمبروں کی باتیں ہوتی رہتیں۔ فلاں جگہ داخلہ لینا ہے، فلاں کے نمبر کم آ گئے، نوکری کیسے ملے گی، اب کیا ہوگا۔ طالب علم اور ان کے والدین سرگرداں رہتے تھے۔

پھر ایک مرتبہ اکرم چچا نے بتایا کہ کالج کے امتحان میں انہوں نے ایک طالب علم کو نقل کرنے سے روکا تو وہ ان کو مارنے کے درپے ہوگیا۔ ایک مرتبہ ایسے ہی چند طالب علموں نے ان کی گاڑی کا شیشہ توڑ دیا۔ ایسے واقعات بڑھتے گئے اور ان کی شدّت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ طالب علموں نے ٹیچر کے ساتھ مارپیٹ کی۔ استاد نقل میں مدد دیتے ہوئے پکڑے گئے۔ فلاں صاحب نے بورڈ کے لوگوں کو ساتھ ملا کر ایک طالب علم کی کاپی بدلوا دی۔

ابّو کے لیے سفارش کا لفظ بھی گالی تھا۔ وہ اس صورت حال سے کسی طرح مفاہمت نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے چوہدری اظہار کی جیپ اور ہنٹر والی خواہش کا ذکر کرنا چھوڑ دیا۔

میرے ایک نوجوان رشتہ دار نے گفتگو کے دوران ’’جگاڑ‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو کھانا کھانے کے دوران ابّو کے ہاتھ سے نوالہ گر پڑا۔ ’’کوئی جگاڑ کرو اور نمبر بڑھوا لو، امتحان میں کیا مشکل ہے؟‘‘ وہ کہہ رہا تھا اور ابّو خاموش نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

لیکن ایسے کتنے ہی لفظ ہمارے چاروں طرف ناگ پھنی کی طرح اگ آئے تھے۔ بھتّہ ایک عام لفظ بن گیا جس سے شہر کے دوکان دار اور تاجر پیشہ افراد واقف تھے لیکن پھر سننے میں آنے لگا کہ کالجوں، درس گاہوں سے بھی مانگا جارہا ہے۔ امتحانوں کے سینٹر نیلام کی بولی کی طرح بکنے لگے۔ نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں جو پرچے، امتحان، سبجیکٹ، مارکس شیٹ، داخلہ اور ایسی باتیں کرتی رہتی تھیں، ان کے تیور بدل گئے۔

بہت سے والدین مشورے کے لیے میرے والدین کے پاس آیا کرتے تھے کہ کون سا کیریئر اچھا رہے گا۔ اس کے بجائے حاتم طائی کا اگلا سوال سامنے آ گیا۔ باہر جانے کے لیے کون سا سبجیکٹ اچھا رہے گا۔ بس یہا ں سے نکلنے کا راستہ بتائیے۔

کبھی کبھار ابّو بتاتے تھے کہ وہ یہاں کس طرح آئے تھے، نامساعد حالات میں کس لگن سے کام کیا تھا، لیکن ان کی یہ باتیں بہت دور دراز کی باتیں معلوم ہوتی تھیں۔ کسی اور زمانے، کسی اور زمین کے قصّے۔۔۔

اس وقت تک ماشٹرنی کا پرس چھن چکا تھا۔ پھر انور چچا نے مذاق اڑانا بھی چھوڑ دیا تھا کیونکہ انہوں نے یہ سن لیا تھا کہ ایک اور ماشٹرنی نے پرس دینے سے انکار کر دیا تھا تو ان کی کنپٹی پر پستول رکھ دی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments