چلکوٹ رپورٹ- عراق اور برطانیہ تعلقات کی تاریخ (حصۂ اول)


\"khurram2003 میں شروع ہونے والی عراق جنگ جس کے ختم ہونے کے کوئی آثار فی الحال نظر نہیں آتے ہیں اب تک کوئی دس لاکھ عراقیوں کو نگل چکی ہے۔ امریکی جانی نقصان پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ برطانیہ کے 179 فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ عراق تین حصوں یعنی شیعہ، سنی اور کرد علاقوں میں تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کے قیام کی دعویدار داعش درندگی، بہیمیت اور سفاکیت میں روز نئی پستیوں کو چھوتی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوگا جس میں مذہبی دہشت گردی کے پیش نظر ریڈ الرٹ نہ ہو۔ اس جنگ میں برطانیہ کی شمولیت بالخصوص اس وقت کے وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر کے متنازعہ کردار پر قائم \’عراق انکوائری\’ کی رپورٹ \’چلکوٹ رپورٹ\’ کو شایع ہوئے آٹھ دن گزر چکے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی آسمان نہیں گرا۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے روایتی رعونت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رپورٹ پر تبصرہ ان الفاظ میں کیا کہ:

\”ہمیں اس سے دلچسپی نہیں کہ 2003ء میں کئے جانے والے ان فیصلوں پر دوبارہ عدالتیں بٹھائیں جو عراق کی جنگ کا سبب بنے۔ ہمیں کیا ضرورت کہ اسے پڑھیں، اس کی تحقیق و تجزیہ کریں اور کسی بھی نتیجے پر پہنچیں؟ اس وقت ہماری پوری توجہ شام اور عراق میں پیش چیلینجز سے نمٹنے کی طرف ہے\”

خود برطانیہ عظمیٰ میں یورپ سے خروج کے ریفرینڈم کے بعد بڑی صفائی سے یورپ مخالف مہم کے تمام آتش بیاں رہنماؤں کو کھڈے لائن لگا کر یورپ میں رہنے کی حامی وزیرِ داخلہ تھریسا مے کو وزیر اعظم منتخب کرنے سے سٹاک مارکیٹوں میں استحکام کا پیغام بھیج دیا گیا ہے۔ اس گرمئ بازار میں چلکوٹ رپورٹ پر ابھی کوئی سنجیدہ بیان بازی دیکھنے میں نہیں آئی۔

مسلمان مملک کی طرف دیکھیں تو گزرے رمضان کا آخری عشرہ بہت خونی ثابت ہوا۔ جس کے دوران استنبول ائرپورٹ پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں 40 سے زائد بے گناہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ڈھاکہ میں یرغمالیوں کو چن چن کر لہو میں نہلا کر ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر ایسے اپ لوڈ کی گئیں، حرمین شریفین کی سرزمین دھماکوں سے لرز اٹھی اور خود عراق میں بہت بڑا خودکش حملہ ہوا جس میں دو سو سے زیادہ نہتے شہری شہید ہوئے۔

\"iraq\" درایں اثنا پاکستان میں امت مسلمہ کو درپیش سب سے اہم مسائل مثلاََ ایدھی صاحب مرحوم کے اچھے مسلمان ہونے یا نہ ہونے اور ایک دفعہ پھر فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دینے جیسے موضوعات زیرِ بحث ہیں۔

ہزارہا صفحات پر مشتمل اس دستاویز کا صرف خلاصہ ہی ڈیڑھ سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ کئی سال پر محیط یہ انکوائری رپورٹ جس پر ایک کروڑ پاؤنڈ سٹرلنگ خرچ ہوئے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائے گی بلکہ امید ہے کہ یہ پہلے برطانیہ اور پھر امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعدد مقدمات کا محرک بنے گی اور اپنے معاشی مفادات کے لئے جھوٹ بول کر اور غنڈہ گردی کر کے کمزور ملکوں کو تہس نہس کرنے کی مزاحمت تیز ہوگی۔

آج ہم صرف عراق میں برطانیہ کی دلچسپی کی ابتدائی تاریخ سے چند نکات پیش کریں گے جو ایک تیرہ صفحاتی ضمیمے کی شکل میں رپورٹ سے منسلک ہے اس کو کمیٹی کے ایک رکن سر مارٹن گلبرٹ نے تحریر کیا تھا جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے استاد، معروف تاریخ دان اور نوے کتابوں کے مصنف تھے اور ابھی پچھلے سال ہی راہیء ملکِ عدم ہوئے۔

ضمیمے کے مطابق اس خطہ میں برطانیہ کی فوجی مداخلت کی ابتدا 1775 میں اس وقت ہوئی جب عثمانی ترکوں نے شط العرب میں پرشیا (ایران) کی دخل اندازی روکنے کے لئے تاجِ برطانیہ سے مدد کی اپیل کی۔ عثمانی دور میں یہ علاقہ تین صوبوں یا ولایتوں پر مشتمل تھا۔ شمال میں واقع موصل جہاں کردوں کا غلبہ تھا، جنوب میں شیعہ اکثریتی علاقہ کا صدر مقام بصرہ جبکہ بیچوں بیچ بغداد جہاں سنیوں کی اکثریت چلی آرہی تھی۔ ساتھ ہی چوتھا صوبہ خلیجِ فارس کے ساتھ لگی چھوٹی سی بندرگاہ کویت تھا۔

1805ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلاڈیس رچ کو بغداد میں اپنا پہلا ریزیڈنٹ تعینات کیا جو عربی پر مکمل عبور رکھتا تھا۔ جلد وہ اتنا طاقتور ہوگیا کہ صوبے کا والی(باشا) بھی ہر قدم اس کی مرضی سے اٹھاتا۔ عثمانی عمالوں کی شکایات تک اسی کے دفتر میں جمع ہونے لگیں۔ انیسویں صدی کے آخر تک یہ علاقہ برطانوی جہازرانی اور تجارتی آمد ورفت کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔

1899 میں عثمانی ترکوں نے جرمنی کے تعاون سے بغداد ریلوے کی تعمیر شروع کی جس کا مقصد برلن سے بغداد کو جوڑنا  اور بڑھتے ہوئے برطانوی اور فرانسیسی اثر و نفوذ کے آگے بند باندھنا تھا تو کویت کے حاکم نے برطانیہ کی حوصلہ افزائی سے اس منصوبے کی مزاحمت  شروع کردی۔ 1904 میں ترکی فوج کو باہر دھکیل کر کویت پر برطانوی عملداری قائم کرلی گئی اور 1913 میں اسے مکمل طور پر ترکی سے الگ کرلیا گیا۔ اسی طرح بحرین اور قطر کو بھی آزاد ریاستیں بنا لیا گیا۔

علاقے میں جرمنی کا اثر کم کرنے کے لئے برطانیہ نے ہندیہ بیراج بنایا جس سے پینتیس لاکھ ایکڑ زمین کو سال بھر پانی سے سیراب ہونے لگی۔

1912ء میں رائل نیوی نے کوئلہ کی جگہ تیل کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس تیل کی بلا رکاوٹ ترسیل کے لئے برطانیہ نے اینگلو پرشین آئل کمپنی میں 51 فیصد حصص حاصل کرلئے۔ یاد رہے کہ اس تیل کی دریافت بھی کا سہرا بھی برطانوی ماہر معدنیات کے سر جاتا ہے۔

1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کے ابتدائی ایام میں دو جرمن جنگی جہازوں نے جن پر ترکی کا پرچم لہرا رہا تھا بحرۂ اسود میں برطانیہ کے اتحادی روس کی ایک بندرگاہ پر بمباری کردی۔ جواباََ برطانوی دستوں نے پرشیا(ایران) کے تیل کے کنووں اور بصرہ پر قبضہ کرلیا۔

1915ء میں لندن میں جنگی کونسل کے اجلاس میں ترکی کی ممکنہ شکست کے بعد کے منظر ناموں پر بحث کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خارجہ سر ایڈورڈ گرے نے عثمانی سلطنت پر قبضہ کرکے نوآبادی بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اگر عربیہ(سعودی عرب)، میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) اور سوریہ (شام) کے علاقوں میں آزاد اسلامی مملکتیں قائم کردی جائیں تو اس سے برطانوی ایمپائر کے مسلم رعایا پر بہت اچھا تاثر جائے گا۔

11 مارچ 1917ء کو برطانوی دستے بغداد پہنچ گئے اور انہوں نے ترکی فوج کو مار بھگایا۔ شہر میں دیسی عرب اور کردوں نے لوٹ مار شروع کردی۔ امریکی قونصل کی مداخلت کی درخواست پر برطانوی اور ہندوستانی فوج نے فائرنگ کرکے شرپسندوں کو منتشر کردیا۔ اگلے دن عام منادی کرائی گئی:

\”اے بغداد کے رہنے والوں! ہماری فوجیں تمہارے شہروں اور قصبوں پر فاتح اور دشمن نہیں بلکہ نجات دہندہ بن کر اتری ہیں\”

\"Iraq2\"30 اکتوبر 1918ء کو ترکی کے جنگ بندی پر راضی ہوتے ہی تینوں عثمانی صوبے یعنی موصل، بغداد اور بصرہ پر برطانوی عملداری قائم ہوگئی۔ اس چار سالہ مہم میں برطانیہ کے اکتیس ہزار فوجی (اکثریت ہندوستانی!) کام آئے جبکہ دوسری جانب جانی نقصان پچیس ہزار تھا۔

دسمبر 1918ء میں پہلے سے چلنے والے خفیہ برطانوی فرانسیسی مذاکرات کے تحت میسوپوٹیمیا اور کردستان برطانیہ کے زیرِنگیں ایک مشترکہ وجود بن کر دنیا کے نقشے پر عراق کی حیثیت سے ابھرا۔

روزِ اول سے عراق میں دو قسم کے سیاسی رحجانات پائے جاتے تھے، ایک تو برطانیہ کی سرپرستی میں اپنی آزادی کا تھا اور دوسرا طاقت کا استعمال کرکے خود اپنی آزادی فی الفور حاصل کرنے کی امنگ۔ بہت جلد ثانی الذکر تقویت پکڑ گیا۔ بغداد میں موجود الاحد جماعت سنی خیالات کی حامل تھی اور بیک وقت برطانیہ، کرد اور جنوبی شیعوں کی مخالف تھی۔ ایک اور سنی گروپ کی قیادت عثمانی فوج کا ایک باغی افسر نوری السعید کررہا تھا جو برطانیہ کے زیرَ اثر متحدہ عراق کا حامی تھا۔ یہ شخص اگلے 35 سالوں میں سات مرتبہ عراق کا وزیرِ اعظم رہے گا۔

فوری آزادی کے خواہاں بغداد کے سنی، جنوب کے شیعہ اور شمال کے کردوں نے پورے ملک میں برطانوی فوجی ٹھکانوں پر حملے کرنے شروع کردئے۔ 1920ء کے موسم بہار میں ایک انقلابی کونسل قائم ہوئی جس کا مقصد علاقے سے برطانوی اقتدار کا خاتمہ تھا۔ اس بغاوت سے نمٹنے کے لئے برطانیہ نے بری اور فضائی طاقت استعمال کی۔ جنگجوؤں کو سبق سکھانے کے لئے پورے پورے گاؤں آگ لگا کر بھسم کردئے گئے۔ اس طرح بغاوت تو فرو ہوگئی لیکن برطانیہ دشمنی کے جذبات خطہ کے آب و ہوا میں اس طرح رچ بس گئے کہ کئی نسلیں گزرنے کے بعد آج بھی انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments