دفاع میں خچروں کا کردار


پاکستان بھر میں بینر لگے ہوئے ہیں۔ راحیل صاحب کا منت ترلا ہو رہا ہے کہ جانے کا سوچیں بھی مت، آنے والی کریں۔ ایسے میں جب حکومت ڈر کے میز کے تھلے چھپی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ایک ایم این اے صاحب نے ایک وڈا سا سانڈ کھول رکھا ہے جو اپنی ہی حکومت کو سینگوں پر اٹھائے پھر رہا ہے۔

آج قومی اسمبلی کی دفاعی امور کے لئے قائمہ کمیٹی کا اجلاس تھا۔ شیخ روحیل اصغر اس کے چیئرمین ہیں۔ شیریں مزاری بھی اس کمیٹی کی رکن ہیں۔ اس اجلاس میں چھوٹے چھوٹے ایشوز چینی آبدوزوں پر کمیٹی کو بریفنگ، بھارت کے ساتھ سرکریک مسئلے پر بریفنگ وغیرہ کے معاملات تو فوری طے ہو گئے۔

کمیٹی جس مسئلے پر غور فرماتی رہی۔ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں خچروں کی افزائش کا ایک فوجی ماڈل فارم ہے۔ یہ اب شہر کے پاس آ چکا ہے یا شہر پھیل کر اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ وہاں کے مقامی ایم این اے نے اس فارم کو اپنے شہر سے منتقل کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ایم این اے صاحب کے شاید خچروں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں یا گھوڑیوں سے کوئی پرانی لڑائی رہی ہے۔

وجہ جو بھی ہے اپنی ہی حکومت کی ذرا پروا نہ کرتے ہوئے۔ اس فارم کے مسئلے پر پنڈی کے ساتھ متھا لگا لیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی حکومت کی بہادری وغیرہ کی بھی ذرا پروا نہیں کی۔ فارم منتقل کرانے کے لئے وہ اپنے مطالبے پر ڈٹ چکے ہیں۔

ممبران اسمبلی اپنے ساتھی کی حمایت میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ خچر نہ تو اڑ سکتے ہیں نہ بحیرہ عرب میں آبدوز وغیرہ کا کام دے سکتے ہیں۔ اس لئے اب انہیں ریٹائر کر دیا جائے۔ ان ممبران کی جہالت پر گرم پانی تو فوجی نمائندوں نے اجلاس میں ہی ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب میں خچروں نے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلحہ اور فوجی انتہائی دشوار گزار علاقوں میں پھرتی سے پہنچائے جا سکے ہیں۔ شدت پسندوں کو شاید ان خچروں نے مناسب قسم کی دولتیاں بھی ماری ہوں لیکن اس کا ذکر قومی راز سمجھ کر نہیں کیا گیا۔

ایل او سی پر اور ہر اس جگہ پر جہاں ایک خاص سطح سے زیادہ بلندی پر جانا ہو خچر کو بہت اہم ذریعہ مانا جاتا ہے۔ یہ بات ممبران اسمبلی کے شاید علم میں نہیں تھی۔ حالانکہ ممبران کتنے اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ سکول کا منہ بھی نہ دیکھا ہو تو بھی بی اے کی ڈگری انہیں نامعلوم ادارے فخر سے جاری کر دیتے ہیں۔

ارکان اسمبلی کی سمجھ بوجھ پر سوال اٹھانے والے پر کم از کم غداری والی دفعات لگنی چاہئیں۔ ان ممبران میں خچروں سے زیادہ نہیں تو اتنی سمجھ ضرور ہوتی ہی ہو گی۔ معاملہ کب بگڑ کر اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں اچھا تھانیدار ملزم کی بجائے مدعی وغیرہ ہی کو لما پا لیتا ہے۔ یہ جاننے کی صلاحیت کائنات میں سب سے زیادہ کسی پاکستانی ممبر اسمبلی میں ہی ہوتی ہے۔

اللہ نے بڑا کرم کیا کہ قومی دفاع میں خچروں کے کردار کی کچھ تفصیل جان کر ممبران نے اپنی گمشدہ عقل کو ہاتھ مار لیا۔ نہائیت فخر سے ایک ممبر نے بتایا کہ جناب خچروں کی قومی خدمات کی وجہ سے شورکوٹ میں زمین آپ کی ہوئی۔ سمجھو دے دی۔ اس سخاوت پر ابھی ممبران ٹھیک طرح سے اظہار مسرت بھی نہ کر سکے تھے کہ ایک افسر نے ان عقل بند عوامی نمائندوں کو سمجھایا۔ لیڈرو، خچر سنٹر فضائیہ کے ائیر بیس کے ساتھ بنانے کو کہہ رہے ہو۔ وہاں خچر ایجاد کرنے کے مراحل تو طے ہو سکتے ہیں۔ لیکن جہاز بار بار ساؤنڈ بیرئیر توڑتے ہیں۔ جب جہاز ایسا کرتا ہے تو ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ ایسے میں پردہ دار گھوڑیوں کو ڈلیوری وغیرہ میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

گھوڑے گھوڑیوں سے دیہاتی ممبران کی پرانی واقفیت و پیار محبت وغیرہ ہے۔ ان کو سمجھ آتے ایک منٹ نہیں لگا کہ یہ معاملہ غیرت کا بھی بن سکتا ہے۔ آخر گھوڑی کی عزت کا سوال جو پیدا ہو گیا تھا۔ ایک قومی بحران آخر کار ٹل گیا اور خچر سنٹر دینے کے لئے متبادل جگہ دینے پر قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے اعلان کر دیا۔

شیر بنتے اور نہ کرتے اعلان۔ چیف صاحب نے پھر بھی کون سا پوسٹر پڑھ کے آ جانا تھا۔ اس اہم مسئلے کے حل ہو جانے کے بعد حکومت کو چاہیے کہ اب میز کے نیچے سے نکل آئے اور کام شام پر توجہ دے۔

Jul 14, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi