نیشنل کالج آف آرٹس…. آدمی ہنسے، دیکھو!


لاہور کی گلزار زمیں پر پھولوں کا ایک قطعہ نیشنل کالج آف آرٹس بھی ہے۔ کچھ تعلیمی ادارے شہر کی تصویر کا حصہ ہوتے ہیں۔ کچھ تعلیمی ادارے اپنے اردگرد آباد بستیوں کو کردار عطا کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے۔ کیمبرج سے آپ کے ذہن میں کیمبرج کا قصبہ آتا ہے یا دریائے کیم کے کنارے علم کی کھیتی کو سینچتی کیمبرج یونیورسٹی۔ علی گڑھ کے قصبے کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے شناخت دی۔نیشنل کالج آف آرٹس کا شمار دوسری قسم کے اداروں میں ہوتا ہے۔ انگریزی ادب کا ہر طالب علم رڈ یارڈ کپلنگ کوجانتا ہے۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ 1875ءمیں میو سکول آف آرٹس کا پہلا پرنسپل رڈ یارڈ کپلنگ کا باپ تھا۔ تب مولوی محمد حسین آزاد اپنی قیام گاہ سے گھوڑے پر بیٹھ کر اورینٹل کالج آتے تھے۔ ’مولوی صاحب کا گھوڑا ‘کے نام سے ایک کہانی ہم نے بھی ابتدائی جماعتوں میں پڑھی۔ شیخ محمد اقبال اور سر عبدالقادر ابھی اسکول میں تعلیم پاتے تھے۔

میو سکول آف آرٹس قائم کرنے سے انگریز سرکار کا بنیادی مقصد ایسے ہنر کی تعلیم دینا تھا جو صنعت و حرفت کو فروغ دے سکے۔ 140 برس پہلے انگریز بہادر جانتا تھا کہ سائنس ، معیشت اور فنون ایک ہی تکون کے تین زاویے ہیں۔ جو ہاتھ لکیر لگانا اور تصویر بنانا جانتا ہے، مشین بھی وہی بنائے گا اور عمارت کا نقشہ بھی اسی کے ہاتھوں مرتب ہو گا۔ 1903ءمیں بھائی رام سنگھ میو سکول آرٹس کے پرنسپل بنے تو انہوں نے ردے پر ردا جما کر لاہور کا وہ حصہ سنوارنا شروع کیا جو آج بھی لاہور کی پہچان کہلاتا ہے۔ گن جائیے وہ عمارتیں جو بھائی رام سنگھ کے ذہن رسا کا کارنامہ تھیں۔ لاہور کا عجائب گھر، پنجاب یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس اور پھر اسی سڑک پر نہر کے قریب ایچی سن کالج کی عمارت۔ بات کو تناظر دینا ہو تو جان لیجئے کہ عبدالرحمان چغتائی 1911ءمیں میو سکول آف آرٹس میں داخل ہوئے تھے۔ 40 کی دہائی میں بی سی سانیال میو سکول میں تعلیم دیتے تھے اور ستیش گجرال تلامذہ کی فہرست میں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں مصوری کی تاریخ تین دہائیوں تک شاکر علی کے نام سے معنون رہی۔ رام پور سے آنے والے شاکر علی کی جیب میں جدید مصوری کے بیج تھے جو انہو ں نے پیرس میں تعلیم کے دوران جمع کیے تھے۔شاکر علی نے پاکستان میں جدید مصوری کی بنیاد رکھی۔
بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تاریخ کے طالب علم شاخ پتے گنتے ہوئے جڑوں کو بھول جاتے ہیں۔ ہماری نسل میں یہ رجحان عام تھا کہ ہر خرابی ضیاالحق کے نام لکھ دی جائے اور یہ قابل فہم بھی تھا۔ ضیاالحق نے گیارہ برس تک پاکستانی قوم کے ضمیر سے پنجہ کشی کی لیکن جاننا چاہیے کہ لاہور میں درس و تدریس پر ضیاالحق کی آمد سے پہلے ہی قیامت کے تین روپ گزر چکے تھے، امیر محمد کالا باغ، مصطفی کھر اور حنیف رامے۔ ممکن ہے کہ کسی کو تعجب ہو کہ اس فہرست میں حنیف رامے کا نام کیسے آیا۔ محترم فرید پراچہ سے پوچھئے گا۔ جواب تو شاید وہ نہیں دیں گے لیکن ’آنکھ ہے دل تو نہیں، ساری خبر رکھتی ہے‘۔ اسی عہد میں ایک آفت نیشنل کالج آف آرٹس پر بھی آئی۔ ایک بے بنیاد افترا پردازی کے نتیجے میں اس مادر علمی کو متعدد قابل احترام اساتذہ سے محروم ہونا پڑا اور پھر جولائی 1977 ءآیا۔ اقبال حسین کی نمائش فٹ پاتھ پر جا پہنچی۔ مہاراج کتھک کو اپنی جماعت الحمرا کے تہ خانے میں منتقل کرنا پڑی۔

ایک ہجوم طفلاں نے کولن ڈیوڈ کے گھر پر ہلہ بول دیا۔ کولن ڈیوڈ کون تھا ؟ کولن ڈیوڈ نے پاکستان کے رہنے والوں کو اس محبت سے مصور کیا کہ مسام سے پھوٹتے پسینے کی بوند بھی دستاویز کر دی۔
نیشنل کالج آف آرٹس محض تعلیمی ادارہ نہیں، فن کا معبد ہے۔ یہاں داخل ہوں تو لال اینٹوں کی روش پر نظر آنے والا ہر فرد کسی ہنر اور کسی خیال کے گیسو سنوارتا نظر آتا ہے۔ یہ لمبے بالوں والا نوجوان جو تیزی سے آپ کے پاس سے گزرا شاید اسے ابھی ابھی کینوس پر برش کا اگلا سٹروک سوجھا ہے۔ مٹی میں سنے ہاتھ لیے جو لڑکی کمہارن بنی بیٹھی ہے وہ سامنے رکھے مٹی کے لوندے سے ایک مجسمہ تراشنا چاہتی ہے ۔ شکن آلود کپڑوں میں جو بزرگ سر جھکائے چل رہے ہیں، وہ ایک یگانہ روزگار استاد ہیں اور انیسویں صدی کی خطاطی پر لیکچر دینے جا رہے ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد اور طالب علم میں فاصلہ بہت کم رہ جاتا ہے۔ فن کی نمو فنکار کی تکریم میں ہے اور نیشنل کالج آف آرٹس کے صدر دروازے میں داخل ہونے والا فنکار ہوتا ہے، استاد کے درجے کو پہنچ جائے یا امکان کے منطقے میں ہو۔ درویش نے سڑک کی دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ کبھی نیشنل کالج آف آرٹس کی دہلیز پر پاﺅں رکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا حالانکہ اختر شیرانی نے بتا رکھا تھا ’یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی‘ مگر شہزاد احمد نے زیادہ حسب حال تنبیہ کر رکھی تھی ۔ ’میرے دل کو تاب نظر کہاں، تمہیں دیکھتا کوئی اور تھا‘۔

یہ سب باتیں اس وقت یاد آئیں کہ 7جنوری کو نیشنل کالج آف آرٹس کے فلم اور ٹیلی ویژن ڈیپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کی بنائی فلموں کی نمائش تھی۔ ملک بھر سے فنون لطیفہ کے جید اساتذہ نوجوانوں کی کارکردگی کا امتحان کرنے آئے تھے۔ اساتذہ بھی موجود تھے۔ دوسری قطار میں کسی کرسی پر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری بھی تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر صاحب نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل ہیں۔ر ائل پام کا چھوٹا سا تھیٹر ہال طالب علموں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ کوئی رسمی کانووکیشن نہیں تھا جس کے لئے چھ بار ریہرسل کر کے اٹھنے اور بیٹھنے کو گھڑی کی سوئیوں سے ہم قدم کیا گیا ہو۔ مگر خاموشی، ادب، وضع داری، علم کی جستجو اور فن کی آبیاری…. اسے درس گاہ کہتے ہیں۔ یہاں خطابت کے جوہر نہیں دکھائے جاتے۔ صحت کے نام پر سیاست اور تعلیم کے نام پر قبضے کی چتاﺅنی نہیں دی جاتی۔ کل نو طالب علم تھے۔ ایک استثنیٰ کے ساتھ سب کا کام ایسا عمدہ کہ دنیا بھر میں کسی بھی ہم عصر طالب علم کے مقابلے میں اعتماد کے ساتھ رکھا جا سکے۔ ہنر اور خیال کا عمدہ امتزاج۔ اور اساتذہ ایسے کہ طالب علم کی درجہ بندی سے زیادہ متعلقہ نکتے کی تشریح میں استغراق۔

امتحان میں ملنے والا نمبر تو کاغذ پہ ایک ہندسہ ہے۔ تعلیم کا معیار طالب علم اور استاد میں علمی مکالمے سے متعین ہوتا ہے۔ دن بھر کی مشق کے بعد ایک طالب علم نے سوال کیا کہ کیا فلم کے شعبے میں ایسے باصلاحیت لوگوں کے سامنے آنے سے پاکستان میں فلم کا احیا ممکن ہو سکے گا۔عرض کیا گیا کہ صلاحیت میں کوئی شبہ نہیں۔ ذہانت میں کوئی کلام نہیں اور ایسے پھولوں کی نمود بذات خود تبریک کا مقام ہے۔ لیکن فیض صاحب نے کہا تھا ، ’ وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں‘۔ ڈرامے کی طرح فلم بھی ایک اجتماعی فن ہے۔ کہانی اور مکالمے سے لے کر اداکار اور ہدایت کار تک، کوئی ایک کڑی کمزور ہو تو زنجیر مخدوش ہو جاتی ہے۔ فلم کا احیا محض ہمارے بچوں کی صلاحیت کا سوال نہیں۔ یہ ایک معاشی انتظام ہے، سماجی اقدار کا معاملہ ہے اور سیاسی عزم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں ایک پرندے کی چہکار بہار کی آمد کا اعلان نہیں کرتی۔

ہم نے بیوہ کی زمین پر قبضہ کرنے کو فلمی سرمایہ کاری سے کہیں آسان کاروبار بنا رکھا ہے۔ فلم میں سرمایہ کاری کو راستہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ قبضہ گیری کی ثقافت ختم کی جائے۔ اگر ٹیکس نہ دینے والے تقدیس کا جھنڈا اٹھا کر سڑک روک لیں گے تو پردہ سکرین پر سماجی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اگر سیاست دان یو ٹیوب پر بندش ختم کرنے کا فیصلہ کرنے میں کئی برس لیتے ہیں تو ہنرک ابسن کے ڈرامے اور ستیہ جیت رے کی فلم کے لیے مطلوب سیاسی ضمانت موجود نہیں۔ فلم بنیادی سوال اٹھاتی ہے۔ سوال پر پابندیاں لگانے والے معاشرے میں نظم لکھی جا سکتی ہے، افسانہ لکھا جا سکتا ہے، فلم نہیں بنائی جا سکتی۔ بدقسمتی سے ابھی فلم کا المیہ باقی ہے اگرچہ خوشی کا مقام ہے کہ ’پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں‘۔ ہنر کا سرمایہ موجود نہیں ہو گا تو باقی شرائط بھی پوری نہیں ہو سکیں گی۔ نیشنل کالج آف آرٹس جیسے اداروں نے کم از کم یہ دروازہ تو کھلا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments