امریکہ سے میری نفرت کا سفر


\"mianغالباً 2004 میں مجھے روم سے پیرس کا سفر بذریعہ ٹرین کرنے کا اتفاق ہوا۔ دس بارہ گھنٹے کے اس سفر میں اکثر مسافر سفر کو آسان بنانے کے لیے آپس میں بات چیت شروع کردیتے ہیں اور آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔ میرے ڈبے میں مختلف امریکی یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس بھی سفر کر رہے تھے اس وقت امریکہ کو عراق پر حملہ کیے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے میں نے امریکی سٹوڈنٹس سے امریکہ کی افغانستان اور اور عراق میں بیشمار بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر بات کی تو اس پر ان امریکیوں کا موقف بہت سخت تھا اور یہ امریکی اقدامات کی مکمل حمایت کر رہے تھے اور کسی طور پر امریکی انسان دشمن اقدامات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ الٹا بقول ان کے \”امریکہ کے یہ اقدامات دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ صدام حیسن ایک آمر ہے اورجو عراقی عوام پر بہت ظلم کر رہا تھا۔ اس کو سبق سکھانا لازمی ہے۔\”

ٹرین کے اسی ڈبے میں کچھ اٹالین سٹوڈنٹس بھی تھے جنہیں انگلش تو زیادہ نہیں آتی تھی لیکن ان کی مکمل حمایت میرے ساتھ تھی کئی گھنٹوں کی گرما گرم بحث کے بعد نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کچھ اٹالین سٹوڈنٹس نے جذباتی ہو کر امریکیوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی کوشش کی جس پر وہ امریکی اس ڈبے سے نکل گئے۔ مکمل دلائل سے حقائق کو سامنے لانے کے باوجود وہ امریکی آخر تک اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے۔ یہ بات میرے لیے بہت حیران کن تھی۔ افغانستان اور عراق پر حملے کے بعد جب امریکی عوام نے دوبارہ بش جونیئر کو 2004 میں صدر منتحب کیا تو امریکی عوام سے میری نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس دوران میں نے سینکڑوں امریکیوں سے بحث ومباحثہ کیا جن میں امریکیوں کی بڑی اکثریت امریکی پالیسیوں کی حامی نکلی۔

یہ نفرت ختم ہو کرپوری دنیا کے انسانوں کے ساتھ محبت میں کیسے تبدیل ہوئی؟

پاکستان میں ہماری نصابی کتابوں میں دوسری قوموں اور مذاہب سے نفرت کا ایک پہلو نکلتا ہے اور یک طرفہ موقف سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ہم دنیا کی بہترین قوم ہیں اور دوسرے مذاہب اور ملک ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ ریاست کے اس پروپیگنڈے سے نکلنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ دنیا میں موساد، را اور سی آئی اے وغیرہ جب کوئی بڑا خونی آپریشن کرتی ہیں تو دنیا کے زیادہ تر لوگ اس ملک کے عوام سے بھی نفرت اور بغض رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ سوچ درست ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جب پاکستان کی کوئی تنظیم دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی اپریشن کرتی ہے تو کیا وہ عام پاکستانی سے پوچھ کر کرتی ہے؟ ظاہر ہے نہیں تو پھر عام پاکستانی سے نفرت کیوں؟ اسی طرح پوری دنیاکے مذاہب یا مسالک میں چند لوگ اچھی یا بری چیزیں شامل کرتے ہیں اس مذہب یا مسلک کے ماننے والوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ تو بس اس مذہب میں پیدا ہوئے اور اس کو ماننا اور حق سمجھنا شروع ہوگئے تو پھرمذہب کے نام پر ان سے نفرت کیوں؟ یہ بیچارے تو کبھی مذہب یا مسلک کے حوالے سے کسی بھی بڑے فیصلے میں حصہ دار ہی نہیں ہوتے۔

2015 کے اعداوشمار کے مطابق اسرائیل، امریکہ اورشمالی کوریا ان پہلے تین ممالک میں شامل ہیں جن سے دنیا سب سے زیادہ نفرت کرتی ہے لیکن اگر آپ ان ملکوں میں حکومتوں کے میکانزم اور پروپیگنڈے کو بغور دیکھیں تو آپ کو ان ممالک کے شہری بےقصور نظر آئیں گے۔ یورپ اور امریکہ میں تقریباً% 100 تعلیم ہونےکے باوجود وہاں کے اکثر لوگ حکومت اور میڈیا کے پروپیگنڈے کا شکار ہیں اور ان کی وہی رائے بنتی ہے جو وہاں کی حکومت اور میڈیا چاہتا ہے۔ شروع میں جن امریکی سٹوڈنٹس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بھی امریکی میڈیا اور حکومت کے پروپیگنڈے کا شکار تھے جو ان کو یہ بتا رہا تھے کہ افغانستان اورعراق میں امریکہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ دنیا اور امریکہ کے مفاد میں ہے۔ اور یہ سب کچھ پوری دنیا اور خصوصاً امریکی شہریوں کی حفاظت کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اور اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو دنیا سمیت امریکہ غیرمحفوظ ہو جائے گا۔ اگر ہم ان کو نہیں ماریں گے تو وہ آپ کوماریں گے۔ جب کہ اندر کی کہانی اس سے بالکل مختلف تھی جو عوام سےمخفی رکھی گئی تھی۔

 جو لوگ حکومتی پالیسیاں بناتے ہیں، آمریت کو مضبوط کرتے ہیں، خفیہ ایجنسیوں کے خونی نیٹ ورک چلاتے ہیں، اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے بے گناہ انسانی خون بہاتے ہیں مجموعی انسانی آبادی میں ان کا تناسب کتنا ہے؟ مذہب،مسلک اور نسل پرستی کے ٹھیکیدار جونہ صرف نفرت اور جہالت پھیلاتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے قتل وغارت بھی کرواتے ہیں وہ کتنے ہیں؟ موجودہ دور کا میڈیا منفی پروپیگنڈے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے لیے اپنے مفادات کی خاطر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ان میڈیا مینیجرز اور مالکان کی تعداد کتنی ہے؟ یہ حکومتی پالیسی ساز، آمر، نسل پرستی، مذہب، مسلک کے ٹھیکیدار، میڈیا مینیجرز اور مالکان دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں تو پھر باقی 99% سے زائد لوگوں سے مذہب ،مسلک ،نسل اور قوم کی بنیاد پر نفرت کیوں کی جائے جبکہ وہ کسی بھی بڑے فیصلے میں حصہ دار ہی نہیں ہوتے۔

ایک انسان سے صرف انسان ہونے کی بنیاد پر محبت تبھی ممکن ہے جب آپ دنیا کی مختلف حکومتوں کا میکانزم، سیاسی، معاشی مفادات، مذاہب اور مسالک کی حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں۔ آج میں امریکی عوام سمیت دنیا کے ان 99% سے زائد انسانوں سے محبت کرتا ہوں جن کا نسل، قوم، مذہب یا مسلک کی بنیاد پر کسی قسم کی نفرت یا انسان دشمن پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انسان سے محبت کے اس سفر میں نسل ،مذہب، مسلک اور قوم سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑتا ہے بصورت دیگر ا نسان سے محبت کے اس سفر میں آپ کے پر کہیں نہ کہیں ضرور جلیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments