فرانس ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں


\"fazleفرانس کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ اس کی جنوبی شہر نیس میں قومی دن پر جشن کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا ہے جس میں آخری اطلاعات تک 80 افراد ہلاک جب کہ50 زخمی ہوچکے ہیں۔ 18 مجروح افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ فرانس کے صدر نے اس حملہ کو دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ٹرک ڈرائیور کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ ٹرک میں سے بندوقیں اور دستی بم ملے ہیں۔ ٹرک ڈرائیور کی شناخت ابھی ظاہر نہیں کی گئی ہے، تاہم اس دہشت گردانہ حملے کا شبہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ پر ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پیرس میں گزشتہ سال نومبر میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد ایمرجنسی نافذ ہے جو 26 جولائی کو ختم ہونے والی تھی لیکن ملک کے صدر نے اس میں مزید تین ماہ کی توسیع کی ہے۔ فرانس میں دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کے لیے دس ہزار فوجیوں کو مختلف مقامات پر تعینات کیا جا رہا ہے جنھیں پولیس کی مدد حاصل رہے گی۔ جب اس اَمر کی توثیق ہوگی کہ اس میں شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہے تو اس کے خطرناک نتائج بھی عراق اور شام کے عوام کو فضائی حملوں کی صورت میں بھگتنا پڑیں گے۔

اس وقت پوری دنیا خصوصاً مسلمان ممالک میں دہشت گردی کی لہر کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان اور پاکستان وغیرہ اس کے خصوصی ہدف ہیں۔ دہشت گردی کا آغاز نائن الیون کے حادثہ کے بعد امریکا کے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد ہوا۔ ناانصافی پر مبنی امریکی حکمت عملی اور پاکستان کی دفاعی گہرائی کی پالیسی اسے مہمیز دیتی رہی۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکا پوری دنیا پر نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرچکا ہے اور اس کے تحت اس کی افواج دنیا کے مختلف خطوں میں برسر پیکار ہیں۔ کہیں پہ امریکا اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نظر آرہا ہے تو کہیں اسے ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ عراق پر حملہ کے بعد اگرچہ اس نے صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کردیا ہے لیکن وہاں پہ اب روز بم دھماکے ہوتے ہیں جن میں درجنوں بے گناہ انسان لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ صدام کے دورِ حکومت میں وہاں پہ امن تھا۔ سنی شیعہ بھی امن سے رہتے تھے لیکن صدام کے بعد صورتِ حال میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اس طرح شام میں اگر امریکا اور یورپ باغیوں کی مدد نہ کرتے تو وہاں پہ اتنے وسیع پیمانے پر انسانی المیہ رونما نہ ہوتا۔ داعش کی تخلیق میں بھی امریکا اور اسرائیل کے کردار کا تذکرہ متعدد بار میڈیا پر آچکا ہے جس نے ایک وبا کی صورت میں نہ صرف عراق بلکہ شام میں بھی تباہی مچائی ہے۔ اب اس کے اثرات لیبیا، افغانستان، ترکی اور فرانس تک پھیل چکے ہیں اور آئندہ نہ جانے کہاں کہاں تک پھیلیں گے۔ طالبان اور القاعدہ کی تخلیق میں امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی پالیسیوں کو عمل دخل ہے۔

جس طرح صدام کی حکومت ختم کرکے امریکا نے پورے خطے کو بد امنی کی آگ میں جھونک دیاہے، اس طرح لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمہ سے وہاں بھی بدترین صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک مل کر اپنے مقاصد کے لیے کسی حکومت کو ختم کرسکتے ہیں، وہاں تباہی پھیلا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد وہاں پہ اپنی مرضی کی حکومت کا قیام اور امن کی بحالی ان کے بس کی بات نہیں رہتی۔

یہ درست ہے کہ مذہب کے نام پہ داعش، طالبان اور القاعدہ نے بدترین دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن ان شدت پسند تنظیموں کے قیام کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو اس کی تمام تر ذمہ داری امریکا کی غاصبانہ پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا کہیں پہ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے تو کہیں پہ انہیں مضبوط بنانے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے تاکہ بعض خطوں میں امریکا کی موجودگی کا جواز قائم رہے۔

فرانس میں دہشت گردی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیوں کہ اس میں بے گناہ انسان اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوئے ہیں لیکن اگر فرانس لیبیا اور اس کے پڑوس میں واقع ممالک میں فوجی کارروائی نہ کرتا تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یہ تو ممکن نہیں کہ دوسروں کے گھروں کو تباہ و برباد کیا جائے، انھیں بد امنی کی آگ میں جھونکا جائے اور اس کے اثرات اور آگ کی تپش سے تباہی پھیلانے والا خود محفوظ رہے۔ جب تک امریکا اور یورپی ممالک اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کریں گے اور سب مل کر داعش اور اس طرح کی دیگر شدت پسند تنظیموں کا واقعتاََ قلع قمع نہیں کریں گے، دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ممالک خود نہیں چاہتے کہ دنیا سے مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ہو کیوں کہ اس شدت پسندی کے نتیجے میں رونما ہونے والی دہشت گردی سے کہیں نہ کہیں ان کے سیاسی اور معاشی مفادات پیوست ہیں۔

فرانس پر حالیہ دہشت گردی کے نتیجے میں یورپی ممالک میں مسلمانوں کے لیے حالات ایک بار پھر دگرگوں ہوجائیں گے۔ مسلمانوں کے خلاف عوامی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوگا اور ان کے لیے امیگریشن کے قوانین میں مزید پابندیاں اور مشکلات بڑھیں گی۔ یورپی ممالک پہلے سے ہی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور اب تو اس عمل میں مزید تیزی آئے گی۔ لیبیا، شام، عراق اور دوسرے متاثرہ ممالک کے مہاجرین نے پناہ کے لیے اگر یورپ کا رُخ کیا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی کسی نہ کسی سطح پر ان ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ ان ہی کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں ان ممالک میں تباہی و بربادی پھیلی ہے۔ ورنہ جب ان ممالک میں امن و امان قائم تھا تو ان میں سے کس ملک کے عوام نے اجتماعی طور پر پناہ کے لیے یورپی ممالک کا رُخ کیا تھا۔

بڑی طاقتوں کی غاصبانہ اور بے انصافی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا اس وقت اپنی بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ انسانی جان اپنی قیمت کھو چکی ہے۔ ہر طرف بے دردی سے انسانی خون بہ رہا ہے۔ امریکا اگرچہ ہزاروں کلومیٹر دور ان تمام خونی واقعات کا اہم کردار ہے اور اگرچہ بہ ظاہر وہ محفوظ ہے لیکن اس بدامنی اور بے انصافی کی اثرات کبھی نہ کبھی اس کی سرحدوں کو بھی اپنی لپیٹ لیں گے۔ یہ درست ہے کہ یہ ساری دہشت گردی مذہب کے نام پر وجود میں آ رہی ہے اور مذہبی جنونیوں کو مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اس تمام تر منصوبہ سازی کے پیچھے جو دماغ کارفرما ہے، وہ مسلمانوں کا نہیں ہے۔ وہ جنونی اور عقل و خرد سے عاری مسلمانوں کو اپنے مکروہ عزائم اور انسانیت دشمن مقاصد کے لیے پوری کام یابی کے ساتھ استعمال کر رہاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments