برہان وانی کی شہادت اورمہاتما گاندھی کا فلسفہ عدم تشدد


\"mujahid

میں نے برہان مظفروانی کا نام توسن رکھا تھا تاہم ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ جب ان کی شہادت کی خبرسوشل میڈیا پرپھیلی اور کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگ گئی تب جا کر تفصیلات سے آگاہی ہوئیں۔ اس خوبصورت جوان کی موت اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوچتا ہوں کہ پچھلی تین دہائیوں میں کشمیریوں نے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں لیکن منزل آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا کہ پہلے دن تھی۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آزادی کے متوالوں کی حکمت عملی پرنقد وجرح کی جائے تاکہ مکالمے کی راہیں کھلیں اور نئے راستے سامنے آئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت فلسطین اورکشمیر کے مسائل سے جذباتی لگاؤ رکھتی ہے۔ اس لئے اس موضوع پربات کرتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں لفظ اپنی تاثیر نہ کھو بیٹھیں یا کسی کونے کھدرے سے کوئی آواز خلوص پر حرص کی پھبتی نہ کس دے۔ تاہم برہان وانی جیسے کڑیل جوانوں کے لاشے دیکھنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اس لئے اس معاملے پر بات کرنا ضروری بن جاتا ہے۔ ویسے بھی آزادی کی تحریکوں کی کامیابی کے لئے ایک دہائی بہت ہوتی ہے۔ اگرمعاملہ اس سے آگے بڑھ جائے تو سمجھ جانا چاہئے کہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

اگر کشمیراور فلسطین میں جاری آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر حکمت عملی اس رومانوی مفروضے پرکام کررہی ہے کہ کامیابی کے لئے صرف اندرونی توانائی ہی کافی ہے۔ خارجی عوامل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ بنیادی تصوریہی ہے کہ جس قوم میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوجائے اسے تادیرغلام بنائے رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا سکڑ کرایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اورچند بڑی طاقتیں اس کرہ ارض کے فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہیں، یہ تصورایک خوفناک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مفروضے کی بدولت درست حکمت عملی اختیار نہیں کی جا سکی اور نتیجتاً لاکھوں جانیں قربان ہو چکی ہیں، ہزاروں گھر اجڑ چکے ہیں پھر بھی آزادی کی دیوی ایک سراب کی صورت دور سے دورتر ہوتی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں تین بنیادی نکات ایسے ہیں جنہیں سمجھے بغیرآزادی کی کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔

1۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آج دنیا میں کوئی بھی بڑی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالمی طاقتیں اس پر اپنی رضا کی مہر ثبت نہ کردیں۔ مشرقی تیمورکا معاملہ ہو یا جنوبی سوڈان کا مسئلہ، امریکہ اورمغرب کی دیگر طاقتوراقوام نے جس وقت ان مسائل کو حل کرنے کا فیصلہ کیا تو تھوڑے ہی عرصے میں ان علاقوں کو آزادی مل گئی۔ اس کے برعکس فلسطین اور کشمیر میں اسقدر قربانیوں اورکئی دہائیوں کی جدوجہد کے باوجود کامیابی نصیب نہیں ہو سکی کیونکہ یہ تحریکیں بڑی طاقتوں کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکیں۔ کشمیری قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صرف پاکستان کی حمایت کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کی حکمت عملی کا بنیادی جزو عالمی قوتوں کی حمایت کا حصول ہونا چاہئے۔

\"burhan3\"2۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا ادراک بھی لازم ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ آج اگر مسلمان ہتھیار اٹھاتے ہیں تو ان کی جدوجہد کوعالمی حمایت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ جو تباہی القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے پھیلائی ہے اس کے بعد کشمیراورفلسطین میں ہتھیاراٹھانا بہت بڑی غلطی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ان کی کچھ ویڈیوزدیکھنے کا اتفاق ہوا جن میں اس کے دائیں بائیں دو ہتھیاربند نوجوان کھڑے تھے۔ یہ خالصتاً القاعدہ اور داعش کا طریقہ ہے۔ آج کے دور میں اس قسم کی ویڈیوز تیار کر کے پھیلانا حکمت کے سراسر خلاف ہے۔

اسی طرح ایک اورجگہ وہ اس بات کا عہد کرتے دکھائی دیئے کہ پہلے مرحلے میں ہم کشمیر پر خلافت قائم کریں گے اوراس کے بعد پوری دنیا پراس کا نفاذ کریں گے۔ دہشت گردی کی موجودہ فضا میں اس طرح کے پیغامات عالمی برادری کو خوفزدہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بھارت کے ظلم و ستم کو نظر انداز کر دیتی ہے۔

3۔ اسلامی تحریکوں کو تیسری بات یہ ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مغربی حکومتیں صرف اپنے عوام سے ڈرتی ہیں۔ اگر آپ نے ان ریاستوں کو اپنی حمایت پر مجبور کرنا ہے تو پھر وہاں کے عوام کی ہمدردی حاصل کریں۔ آج کے دور میں یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے کسی خطے میں ہونے والا واقعہ لمحوں میں ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ مغربی حکومتوں کی طرح وہاں کی عوام بھی تشدد کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس لئے پوری حکمت عملی ایسی تشکیل دینی چاہئے جس میں تشدد کا عنصرغاصب ریاستوں کی جانب سے تو سامنے آئے مگرآزادی کے شیدائی اس سے دوررہیں۔ ان کی حکمت عملی کا رخ مغربی عوام میں انسانی ہمدردی کا جذبہ ابھارنے کی جانب ہو۔ شامی مہاجرین کے معاملے پر ہم اس کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ جب مغربی سماج میں ہمدردی کی لہر پھوٹی توعوام نے اپنی حکومتوں کو مجبور کر دیا کہ ان لٹے پٹے افراد کے لئے سرحدیں کھول دی جائیں۔

اگر ہم یہ تسلیم کرلیں مغربی ممالک کے پاس ہی وہ قوت ہے جو بھارت یا اسرائیل کو مجبور کر سکتی ہے اور اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ تشدد کے رستے سے ہم دنیا کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتے تو پھرمغرب کو اپنی بات سمجھانے کا ایک ہی رستہ بچتا ہے اور وہ عدم تشدد کے فلسفہ پر عمل کرنا ہے۔ میری پوری دیانت دارانہ رائے ہے کہ آزادی کی تحریکوں کومہاتما گاندھی کی جدوجہد کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے جس طرح تشدد کا راستہ اپنائے بغیرغیرملکی حکمرانوں پراخلاقی دباؤ قائم رکھا، اس میں کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لئے بہت سے قیمتی سبق پوشیدہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں گاندھی جی کے بارے میں بہت سی منفی باتیں پھیلی ہوئی ہیں تاہم بیرونی دنیا انہیں ایک بہت بڑا انسان مانتی ہے ۔ اس وقت بہت ضروری ہے کہ آزادی کے شیدائی قتل و غارت سے ہٹ کربھی سوچیں اور اپنی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لیں۔ جب سوچ میں تبدیلی آئے گی توتخلیقی ذہن نت نئے رستے دریافت کریں گے۔

جب کشمیری ہتھیار اٹھا کر پولیس یا فوج سے لڑتے ہیں تو نہ صرف انڈیا کے اندرموجود سول سوسائٹی کو اپنا مخالف بنا لیتے ہیں بلکہ بھارت میں موجود اپنے گنے چنے حامیوں کو بھی کمزور کر دیتے ہیں۔ فرض کریں کشمیری حریت پسند اعلان کرتے ہیں کہ آج سے وہ گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کو اپنا کرآزادی مانگیں گے تواس کا کیا اثر ہو گا؟َ پورے ہندوستان میں ان کی حمایت کرنے والے گروہوں کو قوت ملے گی جبکہ عوام پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ اسی طرح دنیا میں بھی اس روئیے کی تحسین کی جائے گی۔ جب کچھ عرصہ اپنے عمل سے وہ اسے ثابت بھی کریں گے تو دھیرے دھیرے ان کی اخلاقی برتری اپنا اثر دکھانا شروع کر دے گی۔

اسی طرح فرض کریں کہ چندلاکھ لوگ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے آگے دھرنا دے کر بیٹھ جاتےہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی ڈنڈا، پتھر یا ہتھیار نہیں ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے۔ وہ لازماً ان پر تشدد کریں گے تاکہ جواب میں بھی تشدد آئے۔ اگر یہ مجمع خاموشی سے ظلم سہتا ہے تو ان کے حق میں ہمدردی کی لہر نہ صرف بھارت کے طول و عرض میں پھیلے گی بلکہ ٹی وی کیمروں کے ذریعے دنیا کے عوام یہ سب دیکھیں گے اوربھارتی ریاست پر بے انتہا دباؤپڑے گا۔

اسی طرح فرض کریں کہ چند لاکھ کشمیری ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں گیتا لے کر احتجاج کرتے ہیں تو ہندو سپاہی مشکل میں پڑ جائیں گے کہ ان پر کیسے تشدد کریں۔ اس طرح کے بے شمار رستے ممکن ہیں تاہم اس ساری حکمت عملی کا مرکزومحور یہ ہو کہ نہ صرف بھارت بلکہ دیگر بڑے ممالک کی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانا ہے۔ عدم تشدد اس نئی طرز کی تحریک کا بنیادی فلسفہ ہونا چاہئے۔ بھارتی حکومت کوشش کرے گی کہ کچھ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ کشمیری قیادت کا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے لوگوں کو تشدد سے دور رکھے۔ فلسطین میں موجود مزاحمتی تنظیموں کو بھی یہی رستہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ ان کا لہو بہتا رہے گا اور دنیا کا ضمیر سویا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments