ترکی: جمہوریت کی واضح حمایت کی ضرورت


\"wajahat\"آج 16 جولائی ہے۔ صبح کے چار بجے ہیں۔ گزشتہ چند گھنٹے سے ترکی میں سیاسی عدم استحکام کی خبریں آ رہی ہیں۔ اگرچہ صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہے تاہم یہ معلوم ہو چکا ہے کہ فوج نے کلی یا جزوی طور پر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کے رہنے والوں کی منتخب حکومت کو بندوق کے بل پر ہٹایا جا رہا ہے۔ امید کی ایک کرن یہ ہے کہ ترکی کے صدر ملک سے باہر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ترکی افواج کے سربراہ زیر حراست ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج میں مزاحمت موجود ہے۔ ایک خبر کے مطابق ترکی کی انٹلی جنس قوتوں کی طرف سے بغاوت کی حمایت کی ابھی اطلاع نہیں آئی۔ استنبول اور دوسری جگہوں سے کشیدگی اور لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں۔

یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ دس برس قبل تیونس میں انتہا پسندی کی مخالفت کے نام پر لوگوں کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔ 2013  میں مصر میں شہریوں کے فیصلے کو تسدلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ کہیں بھی ایسی غیر جمہوری کوشش سے درست نتائج برامد نہیں ہوئے۔ اب ترکی میں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے فوجی گروہ نے اعلان کیا ہے کہ فوج نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے حکومت سنبھال لی ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی حفاظت کا یہ طور نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کے نام پر انسانی حقوق سلب نہیں کئے جا سکتے۔ جمہوریت کے نام پر جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ سیکولر ازم کے نام پر بندوق اٹھا کر ساری دنیا مین بھی سیکولرنظام کا اعلان کر دیا جائے تو یہ سیکولرازم کی تقاضوں کے منافی ہو گا۔ سیکولر ریاست کا منصب جمہوری اصولوں کو تسلیم کئے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ جمہوریت کا مطلب ہے لوگوں کی حکومت۔

انسانی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ سیکولر ازم کے نام پر غیرجمہوری حکومتیں قائم کی گئیں اور ان سے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ جس طرح تمام شہریوں کی آئینی، قانونی اور سیاسی مساوات کا اصول جمہوریت کی بنیاد ہے اور اس اصول سے انکار کیا جائے تو جمہوریت محض اکثریت کا استبداد بن کر رہ جاتی ہے اسی طرح یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سیکولرازم کا مقصد مذہب کو دبانا نہیں بلکہ تمام شہریوں کے لئے عقیدے کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔ سیکولرازم کا مقصد مذہب کی مخالفت نہیں بلکہ ہر شہری کے لئے عقیدے کی آزادی کا یکساں تحفظ ہے۔ سیکولرازم کی بنیاد مذہبی رواداری ہے۔ کسی بھی مذہب کے خلاف عناد کی مدد سے سیکولرازم کا قیام محض جبر ہے۔

آمریت بذات خود قدامت پسندی ہے۔ آمریت کو جدیدیت کا ذریعہ سمجھنا سیاسی شعور کی پسماندگی ہے۔ سیکولرازم مذہبی تعصب کے بغیر انسانوں کے تحفظ کا نام ہے۔ جمہوریت سیاسی بندوبست میں حصہ لینے کے شہری حق کا نام ہے۔ جدیدیت علم کی بلا روک ترقی کی مدد سے انسانوں کی زندگی میں زیادہ خوشیاں لانے کا نصب العین ہے۔

قبل ازیں تیونس اور مصر میں فوجی بغاوت کے موقع پر بھی یہی سوال سامنے آیا تھا۔ ابھی بنگلہ دیش میں سیکولرازم کے نام پر سیاسی انتقام کے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ ترکی میں منتخب حکومت ہٹانے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے تو سیاسی افراتفری پیدا ہو گی جس سے مذہبی انتہا پسندی کا راستہ ہموار ہو گا۔ ترکی میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے میں کامیابی ہو گئی تو پوری دنیا میں امن، رواداری اور جمہوریت کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ ابھی ہم نائن الیون، عراقی جارحیت، افغانستان جنگ، شام اور لیبیا میں خانہ جنگی کے اثرات سے نہیں سنبھل سکے، مسلم اکثریتی معاشروں میں جمہوریت کی بات کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ترکی میں اسلامی مہم جو سامنے آئیں یا سیکولر غیر جمہوری بندوبست، ہر دو صورتوں میں پیچیدگی پیدا ہو گی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بھی امن اور ترقی کی کوششوں کو نقسان پہنچے گا۔ یہ جمہوریت پسندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیکولرازم کے حامیوں کے لئے ایک واضح اخلاقی اور سیاسی موقف اختیار کرنے کا وقت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments