مارشل لا مردہ باد


\"farnood01\"رک فوج نے بغاوت نہیں کی بلکہ ترک فوج کے اندر بغاوت ہوئی. باغی گروہ نے ایوان اقتدار پہ شب خون مارنے کی مکروہ جسارت کی جواب تک کی اطلاعات کے مطابق رسوائی سے دوچار ہوئی جارہی ہے.

دراصل.!

ترک فوج میں جس ذہن کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، وہ فتح اللہ گولن کا ذہن ہے. یار لوگ فتح اللہ گولن کو نشانے پہ لیے رکھتے ہیں مگر دو باتیں انہیں بہر حال کبھی نہیں چاہیئں.

پہلی بات.!

 طیب ایردوان کی نوزائیدہ جماعت انصاف وترقی پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج پہلے انتخاب میں سر خرو ہونے کا تھا اور انتخاب کا یہ پہلا معرکہ اس جماعت نے فتح اللہ گولن کی خاموش تائید سے ہی سر کیا تھا.

دوسری بات.!

 اقتدار کی پہلی ہی مدت میں چند فوجی افسران نے ایدوان کے پاس آکر یہ انکشاف کیاتھا کہ فوج میں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی سازش تیار کی جا رہی ہے. اسی انکشاف کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ سازش ناکام بنائی گئی بلکہ ملوث جرنیلوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا گیا. بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فوج کی طرف سے ہونے والی اس پہلی ممکنہ بغاوت کا انکشاف خفیہ طور پہ جن افسران نے کیا تھا وہ فتح اللہ گولن کے ہی پیروکار تھے. سو یہ بات شک شبہے سے بالاتر ہے کہ فتح اللہ گولن کے پیروکار اور عقیدت مند نہ صرف یہ کہ ریاستی اداروں میں ایک طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں. دوسری اور تیسری حکومتی مدت میں ایردوان نے جن توسیعی عزائم کو ظاہر کیا اس کا نشانہ فتح اللہ گولن بھی بنے. فتح اللہ گولن کے ساتھ مخاصمت کی بنیاد طیب ایردوان نے رکھی تھی اور یہ ان کا غیر دانشمندانہ اقدام تھا. صرف یہی نہیں، آگےچل کر طیب ایردوان نے سماجی ذرائع ابلاغ پر بندشیں عائد کر کے اور پریس کے ساتھ ایک جارحانہ تصادم پیدا کر کے خود اپنے جمہوری کردار پہ کئی سوالات اٹھا دیئے.

یہ ہوا کیا.؟

حقیقت حال کیا تھی؟ رفتہ رفتہ پردہ سرکتا جائے گا اور راز کھلتے چلے جائیں گے، مگر فی الوقت بغاوت کی خبر سے طبعیت لرز کر رہ گئی. جیسے برسوں کی محنت سے تراشا ہوا ایک خوبصورت مجسمہ دھڑام سے زمین بوس ہونے کی خبر آگئی ہو. ستر برس تک آمریت کے سائے سانس لینے والی قوم کو اب کہیں جاکر ایک جمہوری عہد میں جینے کا موقع میسر آیا تھا، اس موقع کو بھی توپ کے دہانے پہ دیکھا تو کرب کے شدید احساس نے آن لیا.

مگر.!

خیر کی بات یہ ہے کہ ترک عوام نے فوجی ٹینکوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر اپنے حق انتخاب کو اپنے زور بازو سے بھی ثابت کردیا. اس عوامی شعور کا سہرا اگر ہم طیب ایردوان کے سر نہ باندھیں تو سراسر زیادتی کا ارتکاب ہوگا. یہ بہت اہم ہے کہ بھاری مینڈیٹ کا غرور انہیں آمرانہ جمہوریت کی طرف دھکیلنے میں ناکام رہے. غرور کے غلبوں سے ایسے لمحے جنم لیتے ہیں جن کے پاس خطاوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا. لمحوں سے خطا ہوتی ہے اور صدیوں کو سزا ملتی ہے. ایردوان کے نئے سیاسی تجربوں نے اگر جمہوریت کو استحکام اور عوام کو خوشحالی بخشی ہے، تو لازم یہ ہے کہ اسے تسلسل ملے.

اور ہاں.!

وہاں کی بغاوت سے یہاں کی بغاوت کیے لیےکچھ تقلیدی پہلووں کی طرف اشارہ کرنے والے عقل مندوں کے لیے اس سانحے میں ڈھیر ساری نشانیاں ہیں. فوج کے ایک حصے کی بغاوت اگر ہمارے ہاں کی غیر جمہوری طاقتوں کے لیے لائق تقلید ہے، تو پھر وہاں کے عوام کی مزاحمت بھی یہاں کے عوام کے لیے تقلید کا کچھ نہ کچھ سامان تو رکھتی ہی ہوگی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments