ترکی، قندیل ۔۔۔ وقار اور غیرت کا فرق


\"husnainہم بہت ہنسی مذاق کرنے والی قوم ہیں۔ بڑے سے بڑا واقعہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا، اس پر ایسے زندہ دل تبصرے آتے ہیں کہ واقعے پر افسوس سے زیادہ اپنے لوگوں پر تاسف ہوتا ہے لیکن جانے دیجیے، شاید اس عمر میں ہی دل مر گیا ہے جو ایسی باتیں لکھی جا رہی ہیں۔

گذشتہ بارہ گھنٹے کے دوران دو اہم خبریں دیکھنے میں آئیں۔ پہلی خبر ترکی پر افواج کے باغی ٹولے کا قبضہ تھا اور دوسری خبر قندیل بلوچ کے قتل کی تھی۔ میڈیا ماہرین نے کہا کہ ہمارے میڈیا میں اب قندیل بلوچ کی خبر پہلے نمبر پر ہو گی اور ترکی گیا تیل لینے ہماری بلا سے۔ گویا یہ دونوں واقعات محض ایک خبر تھے، جو واقعہ سبقت لے جائے گا وہ آج کے دن چلتا رہے گا، لوگ ٹی وی اور کمپیوٹر سے چپکے رہیں گے اور پل پل کی اپ ڈیٹ لیتے رہیں گے۔

ان دونوں خبروں کی خبریت سے زیادہ ہمارا مجموعی رد عمل ایک اہم خبر ہے جو اس چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم سنگ دلانہ سطح پر بے حس اور سفاک ہو چکے ہیں۔ بڑے سے بڑا قتل عام اور چھوٹے سے چھوٹا لڑائی جھگڑا ہمارے لیے ایک واقعہ ہے، محض ایک قصہ، الا یہ کہ اس میں ایک فریق ہم خود نہ ہوں یا وہ خود بذاتہ ہماری ذات پر نہ گزرا ہو۔

ترکی میں فوج کے ایک باغی گروہ نے حکومت پر قبضے کی کوشش کی، ترک وزیر اعظم نے سوشل میڈیا کی مدد سے عوام کے نام ویڈیو\"turky\" پیغام بھیجا کہ اس بغاوت کو کچلنے میں ان کی مدد کی جائے، مسجدوں سے اعلانات ہونے شروع ہوئے، ہر دس منٹ بعد اذانیں دی جاتی تھیں، قیامت صغری کا سماں تھا، کیا مرد، کیا عورت، کیا بچہ، کیا بوڑھا سب اپنے گھروں سے جو بھی ہتھیار قسم کی چیز ہاتھ لگی، لے کر نکل آئے۔ ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے، بندوقوں کے آگے کھڑے ہو گئے، اہم اداروں کے دروازوں پر پہرا دینا شروع کر دیا، بھاری جانی نقصان  اٹھایا مگر آخر اس بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ ہمارے اردو ادب کے جانے پہچانے نام ڈاکٹر خلیل طوق ار نے اپنے پروفائل پر ترکی کا جھنڈا لگایا اور ان کے محتاط بیانات ہمیں ترکی کی صورت حال سے آگاہ کرتے رہے۔ یہ چیز غور کرنے کے قابل ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی پروفائل پر ترکی کا جھنڈا تھا۔ نہ ان کے آرمی چیف کی تصویر تھی، نہ اس وزیر اعظم کی کہ جس کے خلاف بغاوت ہوئی اور نہ اس باغی ٹولے کی جو فوجی حکومت قائم کرنے کے درپے تھا۔

ان کا یہ رویہ ترک عوام کی مجموعی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے لیے سب سے پہلے اپنا ملک ہے اور بعد میں کوئی بھی شخصیت۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملک کی کامیابی اسی نظام میں ہے جس کا وہ خود ایک حصہ ہیں اور کوئی آئے یا کوئی جائے، چھلنی کا کام انہوں نے اور ان کے نظام نے ہی انجام دینا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ فوج کی اہمیت صرف انہیں معاملات میں ہے جن کے لیے وہ ذمہ دار ہوتے ہیں، انہیں یہ بھی علم ہے کہ ایک بار اگر ایسی کوشش کو عام لوگوں کی مجموعی طاقت سے ناکام بنایا جائے گا تو آئندہ کئی برس تک کوئی بھی آمر ملک پر ناجائز طریقے سے قبضہ کرنے کے خواب تک دیکھنا چھوڑ دے گا۔\"turkey\"

ادھر ہمارے ہاں یہ تمام صورت حال ایسے دیکھی جا رہی ہے جیسے کوئی فٹ بال میچ ہو۔ ایک صاحب کی آواز آتی ہے کہ جنرل راحیل ترکی کی تازہ صورت حال پر وزیراعظم سے مشورہ کرنے کے لیے فون کرنا چاہتے تھے مگر یار لوگوں نے خبردار کیا کہ ان حالات میں ایک فون کال بھی ان کے دل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک اور جگہ تبصرے میں جنرل راحیل کی بلائیں لی جا رہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب تو آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالیے اور ترکی والوں کو دکھا دیجیے کہ فوجی قبضہ کہتے کسے ہیں۔ ایک صاحب کہتے ہیں، \”ترکی میں عشق ممنوع کے نئے سیزن کا آغاز\” اور ایک جگہ نوشتہ نظر آتا ہے، نواز شریف ترکی میں عوام کی حمایت دیکھ کر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، لوگ اس وزیر اعظم کے لیے نکلتے ہیں جسے وہ اپنے دل کے قریب سمجھتے ہوں۔

یہ تمام تبصرے ہمارے مائنڈ سیٹ کے عکاس ہیں۔ ترک عوام کا ساتھ دینے اور ان کو مبارک باد دینے کے بجائے لوگ فوراً حسرت میں مبتلا ہو گئے کہ کاش ایسا ہمارے یہاں بھی ہو جائے تو کیا ہی مزے ہوں۔ کیوں ہو؟ ملک بننے سے آج تک آدھی زندگی آمروں کی حکومت میں کوڑے کھا کر اور عجیب و غریب خارجہ پالیسیاں آج کے دن تک بھگت کر بھی آپ کا شوق پورا نہیں ہوا جو پھر کسی شاہ سوار کو آواز لگاتے ہیں؟ صاحب، ڈیڑھ دو سال صبر کر لیجیے، جس کو مرضی حکم ران بنائیے، ہمارے ووٹوں سے جو بھی آئے گا سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور ملک کی بہتری کے لیے اس کے ساتھ چلیں گے۔ اور ایسی واضح صورت حال میں کہ جب آرمی چیف اپنی ریٹائرمنٹ اور سیاسی \"turki\"سرگرمیوں میں شامل نہ ہونے کا عندیہ کئی بار دے چکے ہیں، اس طفیلیے گروپ کا سڑکوں پر بینر لگانا اور اخباروں اور سوشل میڈیا پر واویلا کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

دوسری خبر قندیل بلوچ کے قتل کی ہے۔ اور انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہاں بھی ہمارے اجتماعی غیرت مند رویے کی عکاسی موجود ہے۔ اگلے سو سال میں بھی اگر ہم معاملات کو اپنے ہاتھوں سے ڈیل کرنے کی بجائے قانون پر چھوڑ دیں تو بڑی بات ہو گی۔ لوگوں کا رویہ اس خبر پر بھی وہی ہے جو ترکی والی خبر پر تھا۔ ایک صاحب مطمئن ہیں کہ ایسے کام کا یہی انجام ہونا تھا، گویا یہ ایک نارمل ردعمل تھا، تف ہے! ایک صاحب کو یہ غم کہ اب یہ خبر میڈیا میں ساری ریٹنگ لے جائے گی۔ کیوں نہ لے کر جائے ریٹنگ؟ ایک لڑکی جو صرف اپنے سوشل میڈیا پیج پر اپنی تصویریں اور ویڈیوز ڈالتی ہے اور پوری رال بہاتی قوم کو پیچھے لگا لیتی ہے، اس کی خبر کیوں نہ بڑی خبر بنے۔ دنیا جہان کے پارسا جس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے تھے، مبارک ہو ان کو کہ ان کی سب سے بڑی دشمن اس دنیا میں اپنی طبعی عمر بھی نہ پوری کر سکی اور ان کی تشنہ خواہشات کو اس کے اپنے بھائی نے عمل کا جامہ پہنا دیا۔ اس لڑکی نے آپ کی حکومت سے تحفظ مانگا اسے نہ دیا گیا، بلکہ انہیں دنوں فخرعالم نے بھی صابری کے قتل کے بعد یہ بات کی تو انہیں پیپلز پارٹی کی ایک فہیم لیڈر کی طرف سے جنرل رانی کا نواسا ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ کیا زوال سا زوال ہے! فن کار اپنی حفاظت کو پولیس اہلکار مانگ لیں تو آپ انہیں کنجر اور مراثی کہہ کر اوقات یاد دلائیں اور ایک انیسویں گریڈ کا عام افسر بھی جب چاہے اپنے ساتھ پولیس گارد لگا لے، آفرین ہے! وہ لڑکی جس کا خواب \"Qandeel4\"صرف اپنی غربت ختم کرنا تھا اور مشہور ہونا تھا، وہ مار دی جاتی ہے۔ کسی کا گھر نہیں لوٹا، کسی کے ساتھ غبن نہیں کیا، کہیں ڈاکا نہیں ڈالا، کسی کو جعلی نوٹ نہیں دئیے، کسی قسم کے فراڈ میں جو لڑکی ملوث نہیں تھی، وہ لڑکی جو معاشرے کے دوغلے پن کا نقاب اتارنا شروع ہی ہوئی تھی کہ اسے عبرت کی مثال بنا کر رکھ دیا گیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، وہ چاہتی تھی کہ اسے سرکار کی طرف سے حفاظتی انتظامات ملیں مگر کہاں، اور ہاں اب یہاں ایک تاریخی جملہ لکھنے دیجیے۔

آہ! بس جی کیا کریں، لکھی تھی بے چاری کی، یہی وقت تھا سو آگیا!\”

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments