ترکی میں زندگی اور قندیل کی موت


\"saimaپچھلی رات کا آ خری اور آج کی صبح کا پہلا پہر ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ نیند آنکھوں میں چلی آ رہی تھی اور بستر کا رخ کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ ایک خبر نے چونکا دیا۔ یہ خبر ترکی پہ فوجی قبضے کی تھی۔ بہت دیر تو یہی سوچنے میں لگی کہ آخر اس خبر میں ایسا کیا تھا کہ جس نے نیند حرام کر دی۔ بہت دیر کے بعد جب کسی نہ کسی طور پلکیں مند گئیں تو آنکھ کھلتے ہی ایک ایسی خبر موصول ہوئی جس کا پہلی سے بظاہر کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے عوامل بھی مختلف تھے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ اس خبر کا اثر بھی اسی شدت کے ساتھ ہوا۔ یہ خبر قندیل بلوچ کے قتل کی تھی۔ اور اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ دونوں میں سے کس پہ لکھا جائے۔ ایک کشمکش میں ہوں

مرنا ہے کہ جینا ہے، اک بات ٹھہر جائے

بہت بچپن سے میں جن ملکوں کے سحر میں  مبتلا ہوں اور جہاں جانے کی حسرت ہے، ترکی ان میں سر فہرست ہے۔ شاید اس کی وجہ میری جمال پرستی ہو۔ اور کیوں نہ ہو۔ آخر اردو ادب میں محبوب کو ترک کہنے کی روایت یہیں سے تو آئی ہے۔ یا پاک ترک دوستی کے بلند آہنگ دعووں کا اس میں کوئی کردار رہا ہو۔ میں یقین سے نہیں کہ سکتی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ اس محبت میں اضافہ ہی ہوا۔ ایک عرصے کے بعد ٹی وی ڈرامے کا رخ اس وقت کیا جب ترکی ڈرامے ڈب ہو کے پیش کیے جانے لگے۔ عزیزی سید کاشف رضا کے دیدم استنبول نے شوق کو مہمیز لگائی اور دوسری کتابوں کے ساتھ ساتھ ماریو لیوی کا استنبول بھی پڑھ ڈالا۔ جناب فرخ سہیل گوئندی کا جمہوری پبلیکیشنز پہلے بھی ایک ایسے ادارے کے طور پر پسند تھا کہ جو اچھی کتابیں عمدہ طریقے سے چھاپتے ہیں ۔ اب اس محبت میں ایک زاویہ ترکی کا بھی شامل ہو گیا۔ اردو افسانے سے پہلے بھی اتنی دلچسپی تھی کہ پی ایچ ڈی کے کام کے لیے اسی صنف کا انتخاب کیا لیکن شاید ایسا اس لیے بھی ہوا کہ یلدرم نے اولین افسانے ترکی ادب ہی سے اٹھائے تھے۔ اور جلال الدین رومی کو کون بھول سکتا ہے۔

حاصل عمر سہ سخن بیش نیست

خام بدم، پختہ شدم، سوختم

لیکن ان سب سے زیادہ شاید ترکوں کی سماجی حالت اور کردار ہے جس نے لاشعوری طور پر مجھے متاثر کیا تھا۔ پچھلے دنوں استاذی اے\"turk\" بی اشرف سے ملاقات ہوئی جو تین دہائیوں سے ترکی ہی میں مقیم ہیں، ان سے اکثر ترکوں کے عمومی رویوں پہ تفصیلی بات ہوتی رہتی ہے۔ ان کی عادات، مذہب کے بارے ان کا رویہ، انسانی ہمدردی، کھانے پینے کے آداب اور معاملات زندگی۔

پچھلے برس جب ترکی میں عالمی کانفرنس جاری تھی اور انھی دنوں انقرہ میں دیشت گردی کا واقعہ ہوا تو ترکوں کے ردعمل نے ایک مسرت آمیز خوشی دی۔ اور پچھلی رات سے اب تک موصول ہونے والی خبریں بھی کسی نہ کسی حد تک اطمینان بخش ہیں۔ لیکن سوچنا یہ بھی ہے کہ آخر پاکستان میں اس طرح کے عمل پر ایسا احتجاج سامنے کیوں نہیں آتا۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ذہنی طور پر پختہ نہیں ہیں۔ بحیثیت قوم ہم اپنے رویوں کے بارے واضح نہیں۔ اور ہمارا کوئی ایک واضح قومی موقف نہیں جس نے برس ہا برس کی تعلیم اور تربیت سے نمو پائی ہو۔ اور اگر ایسا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ بہترین آمریت بھی بد ترین جمہوریت سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس بارے جناب وجاہت مسعود نے جو اظہار خیال فرمایا ہے اس پہ مزید اضافہ نہیں کر سکتی ، چلتے چلتے اتنا کہوں گی کہ

پچھلے دنوں لیری چارلس کی نیم مزاحیہ نیم طنزیہ فلم

The Dictator

دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو احباب آمریت کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں ان سے گذارش ہے کہ لطف اندوزی ہی کی خاطر ایک دفعہ یہ فلم بھی دیکھ لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments