ترکی میں فوجی بغاوت، ایردوان اور گولن


\"turkey-parliament5\"

گزشتہ مئی میں سینئر ترک صحافی فاروق مرجان کی لاہور آمد ہوئی جو کہ ترک اسلامی تحریک گولن موومنٹ کے ہمدرد ہیں۔ آج کل وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان سے ترکی کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے ہمیں بھی بلایا گیا۔ اس وقت ترکی کے حالات انتہائی پریشان کن تھے۔ ایک طرف ترکی شام اور عراق میں پاکستان ہی کی مانند سٹریٹیجک ڈیپتھ تلاش کر رہا تھا، دوسری طرف کردوں سے صلح کا عمل ختم کر کے ان سے دوبارہ جنگ شروع کر دی گئی تھی، تیسری طرف داعش کی دہشت گردی بھی ترکی میں شروع ہو چکی تھی، چوتھی طرف دیرینہ حلیف اسرائیل سے تعلقات معطل ہو چکے تھے اور پانچویں طرف ترکی کے ایک اہم تجارتی پارٹنر روس کا ایک جہاز شامی سرحد پر گرانے کے بعد روس سے تعلقات انتہائی خراب ہو چکے تھے۔ ترکی روایتی طور پر اپنے ہمسایہ ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے اور ان سے خوشگوار تعلقات رکھنے کا قائل تھا۔

\"turkey-parliament3\"

شامی جنگ کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین کی آمد ہو رہی تھی جو کہ پورے ملک میں پھیل رہے تھے اور ترکی میں امن و امان اور روزگار کے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ ترکی کی معیشت کا ایک سیکٹر، سیاحت تباہ ہو چکا تھا۔ روس نے ترکی جانے والے سیاحوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور ترکی سے درآمدات بند کرنے کے علاوہ ترکی تعمیراتی کمپنیوں کو ملک میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔

ایسے میں فاروق مرجان سے بات ہوئی جو کہ ملک کی صورت حال پر پریشان تھے۔ ان کی رائے میں صدر ایردوان ترکی کو تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور نوے کی دہائی میں ترگت اوزال کے دور سے ترکی نے اقتصادی ترقی کا جو سفر شروع کیا تھا، اسے ایردوان تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اور اب دوبارہ وزیراعظم نہ بن سکتے کی قانونی رکاوٹ کی وجہ سے صدر ایردوان ایک ایسا آئین لانا چاہتے ہیں جو کہ صدر کو لامحدود اختیارات دے دے۔ دوسری طرف انہوں نے صحافیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں۔

\"turkey-parliament\"

ان سے پوچھا کہ عوام میں ایردوان کی کتنی سپورٹ ہے؟ کہنے لگے کہ بدقسمتی سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ عوام ابھی بھی ان کے حامی ہیں جبکہ ملک ہر طرح سے ڈوب رہا ہے۔ پوچھا کہ اگلے بلدیاتی، قومی یا صدارتی انتخابات کب ہیں؟ کہنے لگے کہ 2019 سے پہلے کسی قسم کا کوئی الیکشن نہیں ہے۔

اس پر ہم نے کمنٹ کیا کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی جنرل کنعان ایورن (آخری ترک جرنیل ڈکٹیٹر) ہی ایردوان کو منصب سے ہٹا سکتا ہے۔ اس پر وہ مزید پژمردہ آواز میں بولے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جائے گا کہ ملک کو زیادہ نقصان ایردوان پہنچا رہا ہے یا ایسا کوئی فوجی ڈکٹیٹر اس سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ ہم نے کہا کہ بس پھر خدا سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ترکی کے لیے بہتری کرے۔ کہنے لگے کہ ہاں دعا ہی کا آسرا رہ گیا ہے۔

\"turkey-parliament2\"

وہیں ایک صاحب نے ان سے ایک سوال کیا۔ کہنے لگے کہ ’فاروق صاحب آپ کی رائے میں کون سا دوست ملک ترکی کی مدد کر کے اس کو اس بحران سے نکال سکتا ہے‘۔ فاروق مرجان کی سمجھ میں یہ سوال نہ آیا۔ کہنے لگے کہ ’میں سمجھا نہیں کہ آپ کی کیا مراد ہے‘۔ ان صاحب نے وضاحت کی کہ ’اس بدترین ملکی کرائسس میں کون سا ایسا دوست ملک ہے جو ترکی کی اس اندرونی صورت حال کو بہتر کرنے میں آپ کی مدد کرے؟‘

فاروق مرجان نے تحیر آمیز لہجے میں کہا کہ ’یہ تو ترکی کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں کوئی دوسرا ملک کیوں دخل دے گا؟ ترکی میں جو بھی تبدیلی لانی ہے وہ ترک ہی لائیں گے‘۔

\"turkey1\"ترک عوام بہت سے معاملات میں ہمارے جیسے ہیں۔ وہ ہم جیسے ہی جذباتی ہیں جو کہ عمل اور نتائج دیکھنے کی بجائے لیڈر کے نعرے سے بہل جاتے ہیں۔ ان کو بھی اسلام کی سربلندی کا نعرہ لگا کر کسی بتی کے پیچھے لگوایا جا سکتا ہے۔ ایک سیکولر ملک ہونے کے باوجود ترک عوام کے لیے اسلام بہت زیادہ اہم ہے۔ ایسا ملک ہونے کے باوجود جس نے اسرائیل کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم کیے جانے سے بھی کئی ماہ پہلے تسلیم کر لیا تھا، ترک عوام کو بیشتر دنیاوی معاملات میں یہودی سازش نظر آتی ہے۔ نیٹو میں امریکہ کا اہم اتحادی ہو کر بھی ان کو امریکہ اپنے خلاف ہی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ایک معاملے میں وہ ہم سے بہت مختلف ہیں۔

\"Erdogan-In-Marmaris-During-Coup\"جہاں ہمیں ہر برائی کا منبع پاکستانی قوم دکھائی دیتی ہے اور دنیا میں موجود ہر خرابی پاکستان میں سب سے زیادہ نظر آتی ہے، وہاں وہ اپنے ملک یا ترک قوم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے ہیں۔ ترکی میں جائیں تو جو چیز سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے وہ ترکی کا جھنڈا ہے۔ لگتا ہے ہر شخص نے ہی اپنی کھڑکی پر ترکی کا سرخ جھنڈا لگا رکھا ہے۔ وہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اپنا ملک کھوتے کھوتے رہ گئے تھے، اور اب اپنی خود مختاری کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔

ترکی میں نوے کی دہائی میں ترگت اوزال نے معاشی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی لیکن اسے عروج پر اے کے پی پارٹی نے پہنچایا۔ سنہ 2002 میں عبداللہ گل کے پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے سے لے کر 2007 میں ان کے عملی سیاست سے الگ ہو کر صدارت تک محدود ہونے تک اے کے پی کی پالیسی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی رہی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ایردوان کی طاقت پر گرفت مضبوط ہوتی گئی اور وہ ایک سویلین ڈکٹیٹر بنتے گئے۔

پہلے قدم کے طور پر عدلیہ کے پر کاٹے گئے اور اسے ایردوان کے حامیوں سے بھر دیا گیا۔ جب 27 مئی 2013 کو استنبول میں گیزی پارک کے مسئلے پر ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑے تو وزیراعظم ایردوان نے ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا، جبکہ صدر عبداللہ گل نے نرمی کی مشورہ دیا۔ اسی موقعے پر ممتاز اسلامی سکالر فتح اللہ گولن کا بیان بھی سامنے آیا جنہوں نے حکومت کو نرمی برتنے کا مشورہ دیا۔ یہاں سے گولن تحریک اور ایردوان میں وہ اختلافات سامنے آنا شروع ہوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

\"gulen\"

گولن تحریک شروع دن سے ہی اے کے پی پارٹی کی اہم سپورٹر تھی۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ترکی کا ہر دسواں شخص گولن تحریک سے ہمدردی رکھتا ہے۔ گیزی پارک کے واقعے کے بعد 17 دسمبر 2013 کو پولیس نے کرپشن کے الزام میں اے کے پی پارٹی کے 52 افراد کو گرفتار کر لیا جن پر تیل کی ناجائز تجارت کا الزام تھا۔ اس سلسلے میں اے کے پی پارٹی کے وزرا بھی ذم دار ٹھہرائے گئے لیکن صورت حال میں ڈرامائی موڑ اس وقت پیدا ہوا جب ایک ایسی ٹیلیفون ریکارڈنگ سامنے آئی جس میں دو اشخاص کی گفتگو تھی جو کہ رجب طیب ایردوان اور ان کے بیٹے بلال ایردوان کے طور پر میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ اس میں مبینہ طور پر ایردوان نے اپنے بیٹے کو کئی ملین ڈالر کی رقم غائب کر دینے کے لیے کہا تھا۔ ایردوان نے اس ریکارڈنگ کو جعلسازی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے گولن تحریک کی سازش کہا۔ اس کے بعد پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ میں بڑے پیمانے پر چھانٹی کی گئی اور یوں عدلیہ کے بعد پولیس بھی ایردوان کے مخالفین سے بڑی حد تک پاک کر دی گئی۔

\"turkey2\"

فوج سے بھی محاذ آرائی چلی آ رہی تھی۔ سنہ 2007 میں ارگینیکون نامی ایک سازش پر قانونی کارروائی شروع کی گئی جس میں فوج کے کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں، ایڈمرلوں اور کرنیلوں سمیت سینکڑوں فوجیوں اور شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں طویل مدتی سزائیں دی گئیں۔ جون 2014 میں ان ملزمان کے خلاف الزامات پر سوال اٹھائے گئے اور ایک اعلی عدالت نے مقدمے کو غیر شفاف کہتے ہوئے اس کی ری ٹرائل کا حکم دیا۔ اس وقت تک گولن تحریک اور ایردوان کے درمیان اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ ایردوان نے الزام لگایا کہ گولن تحریک سے تعلق رکھنے والے ججوں نے فوج کے خلاف سازش کی ہے۔

اپریل 2016 میں اعلی ترین ترک اپیل کورٹ نے ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ہی ناکام رہا ہے کہ ارگینیکون نامی کوئی تنظیم وجود رکھتی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 2003 میں تیار کی جانے والی جس ڈاکیومنٹ کو مقدمے کی بنیاد بنایا گیا تھا، اس کے بارے میں تحقیق کرنے پر علم ہوا کہ اسے چار سال بعد تیار کیے گئے مائکروسافٹ ورڈ کے 2007 کے ورژن پر تیار کیا گیا ہے۔

\"turkey-5\"

جمہوریت کے تین ستون بتائے جاتے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ اور آزاد پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے جو کہ عوام کی رائے بناتا ہے اور پہلے تین ستونوں کو بے لگام ہونے سے روکتا ہے۔

سنہ 2011 میں بین الاقوامی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے مسلسل دو سال تک ترکی کو ایک ایسا ملک قرار دیا جہاں دنیا بھر میں صحافت کو سب سے زیادہ ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ 2008 سے لے کر 2016 تک بیاسی صحافیوں کو جیل میں بھِیجا گیا، جن میں سے 68 ابھی تک جیل میں ہیں۔

\"APTurkey112015BurhanOzbilici\"ان پر ریاست کے خلاف کام کرنے، صدر کی توہین کرنے، ملکی مفاد کو نظر انداز کرنے وغیرہ جیسے مبہم الزامات لگائے گئے اور کئی پر تو غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بڑے ترین صحافتی اور کاروباری ادارے کسی نچلے درجے کی عدالت کے حکم پر بھی قومی ملکیت میں لے لیے گئے۔

جمہوریت کے تینوں ستونوں، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر ایردوان کی آہنی گرفت ہے اور چوتھے ستون کو زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ جبکہ خود کو سیکولرازم کا محافظ قرار دینے والی فوج کو بھی ایرگینیکون سازش کے الزام کے تحت نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اگلے الیکشن 2019 سے پہلے نہیں ہیں۔

\"turkey3\"ایسے میں پھر جنرل کنعان ایورن ہی آنے کا خدشہ تھا۔ لیکن کل رات ہونے والی فوجی بغاوت ایک محدود فوجی گروپ نے کی جسے ترک جمہوریہ کی وفادار فوج اور اس سے بھی بڑھ کر سڑکوں پر نکل آنے والے عوام کے جم غفیر نے ناکام بنا دیا۔ اب اس سلسلے میں ایک جنرل اور ایڈمرل سمیت کچھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ایردوان نے اس فوجی بغاوت کا الزام اسی گولن تحریک پر لگایا ہے جس پر پہلے انہوں نے ایرگینیکون کے ذریعے فوج کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا۔

فتح اللہ گولن نے اس پر اپنا موقف پریس کو جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہاں ہے کہ ’میں شدید ترین الفاظ میں فوجی بغاوت کی مذمت کرتا ہوں۔ اقتدار کو طاقت کے بل پر نہیں بلکہ صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جانا چاہیے۔ ایک ایسے شخص کے طور پر جو کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کی متواتر فوجی بغاوتوں میں (ظلم) کا نشانہ بنا، میرے لیے یہ خاص طور پر نہایت توہین آمیز بات ہے کہ مجھ پر کسی ایسی کوشش کا الزام لگایا جائے۔ میں واضح الفاظ میں ایسے الزام کا انکار کرتا ہوں‘۔

\"turkey-3\"

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایردوان نے عوام کو اسی سوشل میڈیا کی مدد سے متحرک کر کے فوجی بغاوت کو ناکامی سے دوچار کیا ہے جس پر وہ شدید پابندیوں کے حامی رہے ہیں اور جسے وہ ترک مفادات کے خلاف کام کرنے والا قرار دیتے رہے ہیں۔ کاش وہ یہ بات سمجھ پاتے کہ فری میڈیا ہی جمہوریت کا سب سے بڑا محافظ اور ملک کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہوتا ہے۔

ایردوان نے پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کی صفائی کے بعد اب فوج کی تطہیر کا اعلان کر دیا ہے۔ ایردوان اب پہلے سے کہیں مضبوط بن کر ابھریں گے مگر انہوں نے جمہوری رویہ اختیار نہ کیا تو پھر یہ آخری بغاوت نہیں ہو گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments