ہمارے خاندانی نظام میں تبدیلی کی ضرورت


سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام فرد کو تحفظ دینے اور خوشیوں کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف موجودہ خاندانی ڈھانچے کی وجہ سے معاشرتی اور سیاسی ترقی میں بھی شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ہمارے مروجہ خاندانی نظام کی افادیت کا اندازہ لگانا ہو تو اپنے محلے یا گاﺅں پر ایک سرسری نظر ڈال کر گھریلو لڑائی جھگڑوں کی بلند شرح ملاحظہ کیجئے۔ اپنے اردگرد بسنے والوں میں سے منہ بسورتے میاں بیوی اور خوش و خرم جوڑوں کا تناسب نکال لیجئے۔ ایک اور پیمانہ یہ ہے کہ ان باپ بیٹوں کی تعداد معلوم کر لیں جنہیں ایک دوسرے کے رویوں سے شکوہ نہ ہو۔ یہ آئے دن چولھا پھٹنے کی وارداتیں دوزخ میں نہیں، ہمارے معزز گھروں میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ پورے معاشرے میں بدعنوانی، رشوت، منشیات اور غنڈہ گردی کا طوفان اُٹھانے والے آسمانوں سے نہیں اُترے ہمارے مقدس خاندانی نظام کی پیداوار ہیں۔ غریبوں کی بیٹیوں کو جہیز کے ترازو میں تولنے والے اور اپنی ہونے والی بہو میں ہوس پرور درندگی سے دراز قامتی تلاش کرنے والے شرفا مغرب سے نہیں آئے ہمارے ہی ملک میں پلے بڑھے ہیں۔ جس معاشرتی نظام میں نام نہاد غیرت کے نام پر اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کا خون کرنے والا تھانے اور کچہری میں سینہ پھُلائے پھرتا ہے، وہاں کی شرافت کا اندازہ کرنا ہو تو دوپہر کی دھوپ میں بچیوں کے کسی سکول یا کالج کے قریب غیرت مند نوجوانوں کے غول ملاحظہ کریں۔ مذہبی تہواروں پر خریدوفروخت کے بارونق مراکز میں بطور خاص پولیس تعینات کی جاتی ہے تاکہ عورتوں کو مقدس خاندانی نظام کے پروردہ نمونوں کی درازدستی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یاد رہے کہ یہ سب حقائق ایسے معمولات زندگی کا حصہ ہیں جن کا عام حالات میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ اگر معمول کی حدود سے آگے نکلنے والے واقعات کا جائزہ مقصود ہو تو کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ کھیتوں سے لے کر پولیس تھانوں تک آبروریزی کی وارداتیں گن جائیے۔ اغوا اور اخلاق باختگی کے قصے پڑھیں۔ سسرال اور قریبی رشتہ داروں کی کارگزاری ملاحظہ کریں۔ سوتیلے والدین اور شوہروں کی بدسلوکی سے تنگ آ کر دارالامان پہنچنے والی بدنصیب عورتوں کی داستانیں معلوم کیجئے۔ ایک ہی نظر میں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرتی نظام شدید تناﺅ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور یہ اس معاشرے کی تصویر ہے جہاں ظلم کی بے شمار کہانیاں خاندانی عزت کے نام پر دبا دی جاتی ہیں۔ چادر اور چار دیواری کے بلند بانگ نعرے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جبر، تشدد اور بددیانتی کی غلاظت پر منافقت کی چادر ڈال کر اسے روایت پرستی کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔

دراصل خاندان کے کسی ایک نمونے کو واحد فطری اور ناقابل تبدیلی نظام قرار دینا تاریخی حقائق سے انکار ہے۔ مختلف زمانوں اور مختلف خطوں میں خاندانی نظام کے مختلف نمونے اور ڈھانچے رائج رہے ہیں۔ کہیں عورت کو مرد پر بالادستی حاصل تھی تو کہیں مرد کو عورت پر۔ کہیں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا تو کہیں میاں بیوی اور بچوں پرمشتمل مختصر گھرانہ۔ کہیں قبیلے کو معاشرتی اکائی کی حیثیت تھی تو کہیں ایک ہی پیشے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو مشترکہ برادری کا درجہ دیا جاتا تھا۔ دوسرے معاشرتی اداروں کی طرح خاندان بھی کوئی جامد مظہر نہیں ہے بلکہ معاشی، سیاسی اور علمی تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ ہزاروں برسوں پر محیط انسانی تاریخ میں خاندانی نظام بے شمار تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ گزشتہ چند عشروں میں سائنسی ایجادات، سیاسی تبدیلیوں اور نئے معاشی ڈھانچوں کی نشوونما کی رفتار تیز رہی ہے چنانچہ خاندانی نظام بھی اسی رفتار سے تبدیل ہو رہا ہے۔ آج کی دُنیا میں کوئی معاشرہ ان تبدیلیوں سے اثر قبول کیے بغیر سیاسی اور معاشی سطح پر زندہ رہنے کی امید نہیں رکھ سکتا۔ خاندانی نظام پر سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کے اثرات کو ذیل کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ صدی میں اِنسانیت کو دو عالمی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر خاندان کا ادارہ بھی اِن جنگوں سے متاثر ہوا ہے۔ ان عالمی جنگوں میں صنعتی ممالک کے محنت کشوں کی بڑی تعداد محاذ جنگ پر مصروف تھی۔ لہٰذا کھیتوں اور کارخانوں میں افرادی قوت کا بحران پیدا ہو گیا۔ چنانچہ جنگ میں شریک بیشتر ممالک میں عورتوں نے مردوں کی جگہ سنبھال لی۔ جنگ کی ہنگامی صورت حال ختم ہونے کے بعد ان عورتوں کو زبردستی ملازمتوں سے فارغ کرنا ممکن نہیں تھا، جنہوںنے بحران میں اپنی پیداواری اور انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور ثبوت دیا تھا۔ علاوہ ازیں جنگ کے بعد سماجی خدمات کے شعبوں میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ نت نئی صنعتوں میں بھی افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ خواتین کارکنوں کی شکل میں صنعتی معاشروں کوایک مضبوط سہارا مل گیا۔

روایتی عورت کا مثالی کردار یہ تھا کہ وہ گھریلو کام کاج میں زندگی بسر کرے۔ لیکن نئی صورت حال میں معاشرے کو یہ اُصول تسلیم کرنا پڑا کہ روزی کمانے کے بنیادی حق میں مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جا سکتا۔ جب عورت روزی کمانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے تو گھریلو فیصلوں میں اس کی رائے کا وزن بڑھ جاتا ہے، اِس کی مالی محتاجی ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ جس گھرانے میں مرد اور عورت دونوں برسرروزگار ہوں وہاں مرد کی روایتی بالادستی کو لازمی طور پر دھچکا پہنچتا ہے۔ معاشی سطح پر خودکفیل عورت محض دو وقت کی روٹی کے لیے نہ تو شوہر سے پٹائی کرانے پر آمادہ ہوتی ہے اور نہ بچوں سے لے کر پیشہ وارانہ امور تک ہر معاملے میں شوہر کے اشارہ ابرو کی محتاج ہوتی ہے۔

جب معاشی سرگرمی میں عورتوں کی بھرپور شرکت کو بطور ایک اُصول تسلیم کر لیا گیا تو عورتوں پر گھریلو کام کاج کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ گھریلو کام کاج میں مدد دینے والے بیشتر آلات مثلاً واشنگ مشین، ویکیوم کلینر، بجلی کا چولھا اور ریفریجریٹر وغیرہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھائی دہائی میں متعارف ہوئے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments