ہمارے خاندانی نظام میں تبدیلی کی ضرورت


اسی سوچ کا دوسرا رُخ جنسی جذبات اور تقاضوں پر ناجائز پابندیوں کا ہے۔ یہ امر تاریخی طور پر ثابت ہے کہ کوئی معاشرہ سخت ترین سزاﺅں کے باوجود جنسی جذبات پر ناجائز پابندیوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا۔ جنسی آزادی لازمی طور پر اخلاقی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے لیکن جنسی تقاضوں پر ناجائز پابندیوں کے نتیجے میں جائز اخلاقی حدود کا تعین ممکن نہیں رہتا۔ دبے ہوئے جائز جنسی تقاضے مجرمانہ رجحانات کو جنم دیتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے تمام معاشرے جنسی بے راہ روی اور منافقت کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں جائز جنسی ضروریات پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

تاریخ میں استحصال کرنے والے حکمران طبقوں نے عوام کو کچلنے کے لیے جسمانی جبر و تشدد، سوچ اور فکر پر پابندیاں اور جائز جنسی ضروریات پر پہر ے جیسے حربے اختیار کیے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران طبقوں کا مقصد پورا کرنے میں تیسرا طریقہ کار سب سے موثر ہے کیونکہ جنسی گھٹن میں انسانوں کو اپنے وجود سے بیگانگی پیدا ہوتی ہے۔ انسان زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ اذیت پسندی فروغ پاتی ہے، اجتماعی بھلائی سے ایمان اٹھ جاتا ہے، انسان اپنی سوچ اور ضمیر پر یقین کھو بیٹھتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ ایسے معاشروں میں درمیانہ طبقہ نام نہاد جنسی پابندیوں کا علمبردار بن جاتا ہے جبکہ اعلیٰ اور نچلے طبقات میں ہر طرح کی جنسی برائیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ جنسی گھٹن کے ماحول میں صحت مند جنسی رویوں اور اقدار کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ لوگ اپنی جنسی زندگی سے غیر مطمئن رہتے ہیں اور طرح طرح کی اخلاقی برائیوںمیں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ خرابی صرف ہمارے معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں صدیوں کی جنسی گھٹن اور ناجائز پابندیوں کے باعث روایتی اخلاقی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ احساس ذمہ داری اور جائز جسمانی تسکین کو یکساں اہمیت دینے والی صحت مند جنسی اخلاقیات راتوں رات نشوونما نہیں پا سکتی۔ نامعقول اجتماعی رویوں کی موجودگی میں معقول لیکن غیر معروف نکتہ نظر کو مشکل سے جگہ ملتی ہے۔ اس ضمن میں پہلا قدم مسئلے کی حقیقت تسلیم کرنا ہے۔ مرض کی درست تشخیص کیے بغیر بیماری دور نہیں کی جا سکتی۔ آج کی دنیا میں ذرائع ابلاغ اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ معاشرے میں ہر طرح کی معلومات کی بلا روک ٹوک فراہمی پر پابندی لگانا ممکن نہیں رہا۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہر طرح کا بُرا بھلا مواد ان افراد تک پہنچے گا جنہیںاپنے معاشرے میں ان موضوعات پر بحث مباحثے کے ذریعے اچھائی اور برائی جانچنے کا موقع میسر نہیں ہو گا۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارا خاندانی نظام مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔ اگر ہم اجتماعی سطح پر دیانتدارانہ اور کھلے بحث مباحثے کے ذریعے مثبت اور منفی جنسی قدروں کا تعین نہیں کرتے تو ہماری آئندہ نسلوں کو مکمل تباہی سے بچانا ممکن نہیں رہے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں بہتری، ترقی، خوشحالی، تحفظ اور امن چاہنے والا کوئی فرد یا گروہ خاندانی ڈھانچے کی تباہی سے خوش نہیں ہو سکتا۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مروجہ خاندانی نظام کے بہت سے پہلو بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہو چکے ہیں بلکہ سماجی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور دیانت دارانہ بحث مباحثے کے ذریعے سماجی ڈھانچوں اور اجتماعی رویوں میں مناسب تبدیلیاں پیدا کی جائیں۔ قانونی سطح پر غیر منضبط رواجی روایات کی تقلید چھوڑ کر تمام شہریوں کے لیے مشترکہ سول قوانین نافذکیے جائیں۔ قانونی، سیاسی اور سماجی سطح پر صنفی امتیاز کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ عورتوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں۔ اجتماعی سطح پر استحصال اور بدعنوانی کی بجائے محنت اور اہلیت کے اصول رائج کیے جائیں۔ بے جا جنسی گھٹن پیدا کرنے کی بجائے صحت مند جنسی اظہار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ مغرب کے خاندانی انتشار پر بغلیں بجانے کی بجائے اپنے خاندانی ڈھانچوں اور سماجی رویوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ صرف اسی صورت میں صحت مند اور پیداواری سماجی ثقافت فروغ پا سکتی ہے اور ایک ایسا خاندانی نظام جنم لے سکتا ہے جو محبت اور تحفظ پر مبنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ اس مجوزہ ثقافت اور سماجی نظام میں بہت سے رشتوں کی باہمی نوعیت وہ نہ رہے جس کے ہم صدیوں سے عادی چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے ذریعے مکمل سماجی تباہی اور زوال کا راستہ ضرور روکا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments