پیرس، باستیل، ایک اور چودہ جولائی۔۔۔ نفرت اور لہو کی سیاست


\"mujahidفرانس ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا شکار ہے اور امکان یہی ہے کہ فرانس، بیلجیم، ہالینڈ، انگلینڈ، ترکی اور جرمنی میں دہشت گردی کے مزید بڑے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ نیس شہر میں گذشتہ روز ہونے والے ٹرک حملے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاح نہیں تھی اور نہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حوالے سے مقامی حکومت کو خبردار کیا تھا۔ یہ ایک ایسا حملہ ہے جس کے بارے میں کم سوچا جاتا ہے کہ کوئی عام شہری اپنے زیر استعمال گاڑی کو قتل کرنے والی مشین میں بدل دے گا۔ تیزی کے ساتھ غیر محفوظ ہوتی ہوئی دنیا میں دہشت گردوں اور انارکی پھیلانے والوں کو محض قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے روک دینا ناممکن دکھائی دینے لگا ہے کیوں کہ شاید دنیا میں ایک بھی ایسی ریاست موجود نہیں جو ہر جگہ اور ہر وقت اپنے تمام شہریوں کو مکمل محفوظ بنا دینے کی اہلیت کی حامل ہو۔ مقدس ترین مقامات سے لے کر عوامی مقامات تک سب کچھ نشانے پر ہے اوروسیع پیمانے پر نااُمیدی بڑھتی جارہی ہے۔ متاثرہ ممالک کی حکومتوں اور سیکورٹی فورسز کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کی تعداد بہت کم ہے اور مایوسی کے باعث وہ اکا دکا حملے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یورپی ممالک میں فرانس ایک بڑا نشانہ ثابت ہوا ہے جب کہ برطانیہ کا دعوی ہے کہ اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محض ایک سال میں سینکڑوں بڑے حملے قبل ازوقت ناکام بنائے ہیں، یہی دعوی بیلجیم، ہالینڈ اور جرمنی کا بھی ہے جہاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم نہیں کیے جا سکے۔ دستیاب معلومات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اسی طرح امریکہ، آسٹر یلیا، کینیڈا، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، عراق، شام، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور کئی دوسرے ممالک میں مقامی و غیرمقامی دہشت گرد گروہ حملوں کے لیے مواقع کی تلاش میں ہیں۔

یورپی ممالک میں فرانس کی صورت حال زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر ہے اور اس کو دہشت گردی کی تازہ لہر میں مہلک حملوں کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دولت اسلامیہ میں فرانسیسی مسلم شہریوں کی بڑی تعداد کا ہونا، الجزائر اور تیونس میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ تنازعات کی طویل تاریخ اور ملک کے اندر سیاسی طور پر دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے، جو فرانس میں مسلم مہاجروں کے خلاف ایک جاندار تحریک کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ دائیں بازو کی سخت گیر سیاستدان لی پین کے بارے میں عمومی طور پر یہ تصور کیا جارہا ہے کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں معتدل حریفوں کو شکست دے کر فرانس کی صدر بن جائیں گی۔ ایسی ہی صورت حال ہالینڈ میں بھی ہے جہاں مسلم مخالف خیرت ویلدر کی اگلے انتخابات میں فتح یقینی ہے جب کہ بیلجیم میں دہشت گرد حملوں کے بعد انتہائی دائیں بازو کی مسلم مخالف جماعت فلامس بلینگ کا نوجوان چیرمین ٹم فان گریکن تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کررہا ہے اور امکان یہی ہے کہ وہ فلامس اور فرنچ کے روایتی جھگڑے کے دوران اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یورپ کے تینوں مذکورہ بالا انتہائی دائیں بازو کے سخت گیر سیاسی راہنماﺅں اور امریکہ میں صدارتی اُمیدوار ڈونل ڈٹرمپ کے سیاسی خیالات خاصے مشترک ہیں، اگرچہ اِن سب کے سیاسی مخالفین اِنہیں غیر سنجیدہ تصور کرتے ہیں لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اِنہیں اپنے اپنے ممالک میں قابل قدر سیاسی حمایت حاصل ہے جو پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مذکورہ چاروں سیاسی رہنماﺅں نے اپنے اپنے طور پر مسلم اقلیتوں کو دیوار سے لگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ اِن ممالک میں آباد \"Paris-Attack-Nov_86818313_86818312\"مسلمانوں کی اکثریت مقامی سیاست میں پس ماندہ تصور کی جاتی ہے۔ اِن ممالک میں آباد مسلمانوں کی اکثریت مقامی سیاست کی بجائے اپنی اپنی مساجد اور مذہبی تنظیموں سے جڑے ہوئی ہے، جہاں ثقافتی انضمام کو گناہ کبیرہ اور مقامی لوگوں کو اسلام دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ عام مسلمانوں کے نزدیک اسلام دشمن ہونے کے لیے کافر ہونا ہی کافی ہے اور ہر وہ مقامی شخص جو مسلمان نہیں اس کے دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں اسلام دشمنی گھسی بیٹھی ہے۔ مثال کے طور پر ہر نماز جمعہ میں کم ازکم یہ دعا ضرور مانگی جاتی ہے کہ یااللہ اِن دشمنان اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کے عزائم کو خاک میں ملادے اور اِن کا بیڑہ غرق کر۔ اس دعا کے بعد امن اور بھائی چارے کے قیام کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ایسے مغربی ممالک جہاں مسلمانوں کی نسبتاً کم تعداد آباد ہے اور یہ آبادکاری گذشتہ دو تین عشروں کے درمیان ہوئی ہے وہاں پرمسائل زیادہ گھمبیر ہیں اور ثقافتی انضمام، مقامی زبان سیکھنا اور مقامی سیاست میں حصہ لینا جیسے ناگزیر اقدامات سے گریز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی سماج سے علیحدگی کا عمل وقوع پذیر ہوا ہے۔ جب ایک باپ اپنی اولاد کو دن میں چار مرتبہ یہ یاد دلاتا ہے کہ ’گورے‘ (مقامی غیر مسلم) ہمارے دوست نہیں ہوسکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے مقامیوں کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھیں؟ دل و دماغ میں ایک مخصوص تعصب کی موجودگی کے ساتھ جب یہ مسلمان بچہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو قدرتی طور پر اپنے ہم مذہبوں کو تلاش کرتا ہے، جہاں اسے ایسے لاتعداد لوگ مل جاتے ہیں جومقامیوں کو اسلام دشمنی کی سزا دینے پر مائل ہوتے ہیں اور مقامی سطح پر اظہار کی آزادی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اِن نوخیز لڑکوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔

اگرچہ اس تمام صورت حال میں مقامی حکومتوں اور پالیسی سازوں کے بین الاقوامی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو کبھی عراق پر \"nice-attack-1043000341\"حملوں کی وکالت کرتے ہیں، کبھی افغانستان میں فوج کشی کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں اور کبھی شام اور لیبیا میں حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کے لیے مقامی عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ برطانیہ، فرانس، بیلجیم، ہالینڈ، اٹلی، جرمنی اور کئی دوسرے مغربی ممالک نے شام میں باغیوں کی سرپرستی کے دوران اپنے اپنے ممالک میں آباد مسلمان نوجوانوں شام اور لیبیا روانگی میں اُن کی مدد کی، اِن کا خیال تھا کہ اس طرح یہ جرائم کی طرف مائل نوجوان شام اور لیبیا میں چلے جائیں گے اور یوں مقامی سطح پر موجود اس مصیبت سے چھٹکارا بھی حاصل کیا جا سکے گا۔ مغربی ممالک کی نظر میں یہی وہ ’دہرا‘ فائدہ تھا جس کے حصول کے لیے ہوائی اڈوں پر جنگ و جدل کے لیے جانے والے مسلمان نوجوانوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لی گئیں۔ اُس وقت یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ ’غازی‘ واپس بھی پلٹیں گے اور اِن کے مقامی سطح پر جو روابط ہیں اُنہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آنکھیں اُس وقت کھلیں جب پانی سر سے گزر چکا تھا اور پردیس گئے جنگجو گردنیں کاٹنے کے بعد چھٹیوں کے لیے واپس آنا شروع ہوئے، وہ اپنی داستانیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو سنانے لگے اور سوشل میڈیا نے اِنہیں ہر جگہ ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ جو نوجوان پہلی مرتبہ نہیں جا سکے تھے وہ بھی جانے لگے اور کالجوں یونی ورسٹیوں میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوجوان لڑکیاں بھی رخت سفر باندھنے لگیں۔ اب مغربی ممالک بیدار ہوئے اور نئے جانے والے جہادیوں کو روکنے کی کوشش کرنے لگے لیکن اب اتنی دیر ہوچکی تھی کہ اس نئی پالیسی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔

جب شام میں مغربی ممالک نے اپنی پالیسی بدلی اور اِنہیں اپنے ہی ہم وطن جہادیوں پر بمباری کرنا پڑی تو ساتھ ہی نوشتہ دیوار بھی نظر آنے لگا۔ اب مغربی ممالک اپنے ہی تیار کردہ جہادیوں کے نشانے پر ہیں جو کبھی ہوائی اڈوں کو اُڑا دیتے ہیں، کبھی ٹرینوں کو اُکھاڑ پھینکتے ہیں، کبھی کھیل کے میدانوں کو موت کے میدانوں میں بدل دیتے ہیں اور کبھی ساحلوں پر چھٹیاں مناتے عام لوگوں پر ٹرک چڑھا دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کے بعد جن حقیقی ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے تھی وہی فیصلہ کریں گے کہ اب کون سی پالیسی اختیار کرنا ہے۔ اکثریتی پُرامن مسلم مہاجرین کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرنا ہے ۔ نئے انتخابات ہوں گے اور نئے متشدد سیاسی سوچ کے حامل لوگ اقتدار میں آئیں گے جومغربی ممالک میں تشدد اور کشیدگی کے نئے دور کا آغاز کریں گے۔ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کے تقریباً سبھی خدوخال مایوس کن ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments