صالحین کا یوٹرن اور ترکی وغیرہ کی فوجی بغاوتیں


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

پاکستان میں 1970 میں الیکشن ہوئے۔ صالحین نے ایک دوجے کو یقین دلا دیا کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں کلین سویپ کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بات عوام کو بھی بتا دی۔ اس یقین محکم کی وجہ نہایت معقول تھی۔ نہ صرف یہ کہ جماعت کے انتخابی جلسے بہت بڑے ہوتے تھے، بلکہ صدر پاکستان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے بھی جماعت سے انتخابات کے بعد کی حکومت کے معاملات پر بات چیت کر لی تھی۔ وہ تو اس حد تک جماعت کے معتقد تھے کہ جب بھی ان کو ملکہ ترنم، جنرل رانی اور اداکارہ ترانہ وغیرہ سے امور مملکت چلانے کے بعد کچھ وقت باقی بچتا تھا تو صالحین کو بلا بھیجتے تھے کہ مل کر صلاح مشورہ کرتے ہیں اور اس صلاح مشورے سے فیضیاب ہو کر امور مملکت کو دوبارہ چلانے کے لیے اپنی حرم سرا میں تشریف لے جاتے تحے۔

ایسے میں الیکشن ہوئے تو پاکستان کے ناسمجھ عوام نے ایک عجیب و غریب حماقت کی۔ انہوں نے اسمبلی کی تین سو سیٹوں میں سے مشرقی پاکستان کی تقریباً تمام، یعنی 160 سیٹیں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی جھولی میں ڈال دیں، اور مغربی پاکستان میں 81 سیٹیں بھٹو کی پیپلز پارٹی کو دے دیں۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں شدید ناکامی سے دوچار ہوئیں لیکن جماعت اسلامی نے محیر العقول عوامی مقبولیت کا ثبوت دیا اور اپنی تمام تر ریپوٹیشن کے باوجود پوری چار سیٹیں جیت لیں جو کہ کل نشستوں کا کوئی سوا فیصد بنتی تھیں اور اس طرح پارلیمان کی آٹھویں بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ اب یہ ایک معقول تعداد تھی اور اقبال کے فرمان کے مطابق کہ جمہوریت میں بندوں گننا نہِں بلکہ تولنا چاہیے، حکومت پر جماعت کا ہی حق بنتا تھا، لیکن بنگالی نہایت شریر نکلے۔ لڑ پڑے کہ وزن نہیں کرو، بندے گنو۔

\"president-ayub\"

بنگالی دھان پان سے ہوا کرتے ہیں جبکہ صالحین خالص گھی کا حلوہ کھانے والے معززین تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ کوہ گراں تھا۔ بہرحال فساد ہو گیا مشرقی پاکستان میں۔ یحیی خان نے مشرقی پاکستان کے عوام کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ شریر لوگ تھے، ہلکا سا لاٹھی چارج بھی ہوتا تھا تو سو پچاس مر جاتے تھے اور بدنام جنرل یحیی ہو جاتا تھا کہ قتل عام کیا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے صالحین نے ان بد دماغ عوام کا ساتھ دینے کی بجائے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان کا ساتھ دینے میں ملک کا مفاد جانا۔ اب جنگ گرم ہو گئی۔ کیونکہ یحیی خان کے لاٹھی چارج سے تو بس دو چار سو بندے ہی مرتے تھے، مگر صالحین کے بھاشن سن کر اتنے مرے کہ مشرقی پاکستان کے ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے تو سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی غیر ملکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تیس ہزار مان لیے۔ اب غیر ملکی مبصرین کا دعوی ہے کہ تین لاکھ مشرقی پاکستانی مرے تھے اور بنگلہ دیشی حکومت کہتی ہے کہ تیس لاکھ مرے تھے۔ بہرحال جو بھی تھا، جماعت نے ایک چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا ساتھ دے کر وطن سے اپنی محبت ثابت کر دی گو کہ اس محبت تاب نہ لاتے ہوئے لاکھوں مر گئے۔ صالحین درست ہی کہتے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق اسی کو ہے جو صاحب سیف ہے۔ اس نازک موقعے پر لبرل سیکولر غداروں نے راگ الاپنا شروع کر دیا کہ جس کو عوام نے ووٹ دیا ہے، اسے حکومت دو۔ بہرحال ان ملک دشمن عناصر کی صالحین نے خوب گوشمالی کی جو کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے تھے۔

\"large-Mr

لیکن پھر جب مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو اس وقت تک چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی اپنی حب الوطنی خراب ہو چکی تھی اس لیے اس نے حکومت کے اصل حقداروں یعنی چار سیٹوں والے صالحین کو حکومت دینے کی بجائے 81 سیٹوں والے بھٹو کو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ حالانکہ اس وقت بھی اقبال کے فارمولے پر عمل کیا جاتا تو خالص دیسی گھی کا حلوہ کھانے والے ان چار ممبران کا وزن پیپلز پارٹی کے ان 81 سوکھے سڑے مزدور اور دانشور ممبران سے کچھ زیادہ ہی نکلتا۔ بہرحال چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحیی خان ڈنڈی مار گیا اور حکومت بھٹو کے پاس آ گئی جس نے کچھ عرصے بعد اپنی پسند کا دستور بنا کر خود کو وزیراعظم مقرر کر دیا اور ملک میں فسق و فجور کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس موقعے پر ہم طالب علموں پر واضح کر دیں کہ علم سیاسیات میں فسق و فجور کی حکومت اسے کہا جاتا ہے جس میں صالحین کو وزارت نہ دی جائے۔

اب بھٹو بہت غلط آدمی تھا۔ وہ محب وطن بھی نہ تھا۔ اس نے ملک بھی توڑ دیا تھا حالانکہ بظاہر اس کے پاس اس وقت کوئی حکومتی اختیار نہ تھا کہ جس وقت مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا اس وقت ساری طاقت صرف یحیی خان کے پاس تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھٹو کتنا عیار شخص تھا کہ کوئی اختیار نہ ہوتے ہوئے بھی ملک توڑ ڈالا۔ اس پر ظلم یہ کہ وہ فوجی وردی بھِی نہ پہنتا تھا۔ جماعتی صالحین نے سب کو یہ بات بتائی کہ مملکت خداداد پر کسی نیک وردی پہننے والے شخص ہی کو حکومت کرنا روا ہے مگر کسی نے حق و انصاف، یعنی صالحین کا ساتھ نہ دیا۔

\"Old-Pakistan-Pictures-144\"

ساتھ دیا تو کس نے؟ ایک محب وطن جرنیل نے۔ اس مبارک شخص کا نام جنرل ضیا الحق تھا اور اس کے نصیب میں پاکستان کا تیسرا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کی سعادت آئی۔ جنرل ضیا ایک مخلص اور محب وطن شخص تھا، اس نے بھٹو کی نام نہاد جمہوری حکومت کو ختم کیا تو صالحین مٹھائی بانٹتے ہوئے اس کے ٹینکوں پر سوار ہو کر کابینہ میں اپنی سیٹوں تک پہنچ گئے۔ یہ وزارتیں صالحین کو دینے سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کی حکومت ایک فسق و فجور سے پاک عین اسلامی حکومت بن گئی۔ اس نازک موقعے پر بھی لبرل سیکولر غداروں نے راگ الاپنا شروع کر دیا کہ جس کو عوام نے ووٹ دیا ہے، اسے حکومت دو، اسے اقتدار سے مت ہٹاؤ۔

\"55ba3d9b08854\"

بہرحال ان ملک دشمن عناصر کی صالحین نے خوب گوشمالی کی جو کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے تھے اور ان کو کوڑے مار مار کر اور زیادہ شریر لوگوں کو شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں بند کر کے ان کی حب الوطنی درست کر دی۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے چند ماہ بعد جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ صالحین دوبارہ مٹھائی کی دکانوں پر لائنیں بنا کر کھڑے ہو گئے کہ شکر ہے کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے راستے سے ایک بغیر وردی والا لیڈر ہٹ گیا اور اب ملک ترقی کرے گا۔ ملک ترقی کرتے کرتے افغان سوویت جنگ میں کود گیا اور صالحین نے خوب ترقی کی۔

پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ قوم اس حد تک بگڑ گئی کہ صالحین کو وہ چار سیٹیں بھی اسمبلی میں نصیب نہ ہوتی تھیں جو کہ ہر الیکشن میں ان کی روایت چلی آ رہی تھی۔ بلکہ غضب یہ ہوا کہ وہ جماعت کے ہیڈ کوارٹر منصورے تک سے کونسلر کا بلدیاتی الیکشن ہارنے لگے اور ان کے اکابرین کے ولی عہد دوسری جماعتوں کے یقینی جیت والے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ کر بھی ہار گئے۔ لیکن ایسے میں صالحین نے ہمیشہ قوم کو تسلی دی کہ اگر منصورے سے گلی کوچے صاف کروانے والے کونسلر کا الیکشن ہار گئے ہیں تو کیا ہوا، ادھر ترکی میں تو جماعت اسلامی پاکستان ہی کی حکومت ہے ناں۔

\"TURKEY52\"ادھر سولہ جون دو ہزار سولہ کی رات کو ادھر ترکی میں چند سرپھرے باغی فوجیوں نے جماعت اسلامی پاکستان کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور مارشل لگا کر اپنا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگا دیا۔ اس موقعے پر ترکی کے باشعور عوام نے، جو کہ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سید رجب طیب ایردوان کی حمایت میں سڑکوں اور چوراہوں کا رخ کیا۔ اس موقعے پر صالحین نے اپنا دیرینہ موقف دہرایا کہ جمہوریت ہی اصل نظام حکومت ہے اور وہ شروع دن سے کسی بھی آئین مملکت کو توڑنے والے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو ایک لمحے بھی برداشت کرنے کے شدید مخالف رہے ہیں۔ صالحین نے واضح کر دیا کہ جمہوریت کے مقابلے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حکومت کا ساتھ دینے کا مطلب اپنے وطن کی مٹی سے غداری ہے۔

\"GeneralMusharraf\"

اب یہ لبرل سیکولر پریشان پھر رہے ہیں کہ ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہو گئی ہے۔ ویسے تو وہ اوپری دل سے یہ کہہ رہے ہیں، بلکہ بغاوت کی خبریں شروع ہونے سے ہی کہنے لگے تھے، کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں خواہ وہ ایردوان جیسے سویلین ڈکٹیٹر یا مرسی جیسے ملک کو تقسیم کر دینے والے صدر ہی کی کیوں نہ ہو، مگر صالحین تو ان کے دلوں کا اصل حال جانتے ہیں کہ یہ لبرل سیکولر ہمیشہ سے جمہوریت کے مخالف ہوا کرتے ہیں اور یہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا ساتھ دینے والے اور اپنے وطن کی مٹی ک غدار ہیں۔ صالحین خوش ہیں کہ اقتدار کی اصل حقدار جمہوریت جیت گئی ہے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہار گیا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments