پروفیسر ڈاکٹر سر قاضی اورنگزیب الحافی – ایک گمنام نابغہ سائنسدان


\"usmanہیہات! لوگ کسی دور دراز جگہ پر ہونے والی کسی ناکام فوجی بغاوت کے چکر سے نکلے تو جنوبی پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کاروکاری میں ایک اور کے اضافے میں دلچسپی لینے لگے۔ اس سے پہلے سے بھی اسی قسم کی غیر اہم اور دل شکن خبروں کا ہی دور دورہ تھا۔ اس شور و غل میں کبھی سکون کے کچھ لمحات آتے بھی ہیں تو لوگ وہی پرانا رونا شروع کر دیتے ہیں کہ آخر مسلمان دنیا بھر سے ہر میدان ترقی میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ خادم یہ عرض گزارنا چاہے گا کہ اس کی وجہ یہی فروعات میں الجھے رہنا، چنانچہ اپنے جوہر قابل کو مٹی میں مل جانے دینا ہے۔ ایسا سانحہ گزشتہ دنوں پھر سے ہوتے ہوتے رہ گیا اور اگر ہمیں بوجہ عوارض معدہ، غسل خانے میں انگریزی اخبار کے اندرونی صفحات تک پڑھنے کی علت درپیش نہ ہوتی، تو گزشتہ کئی صدیوں سے طاری علمی جمود کو جھنجھوڑ دینے والا ایک عظیم الشان کارنامہ ہماری نگاہ سے بھی اوجھل رہ جاتا۔

ہوا یوں، کہ اخبار میں ایک تصویر نظر آئی، جس میں ایک صاحب ایک ننھے سے خرگوش کو ہتھیلی پر اٹھاے ہوۓ ایستادہ ہیں اور ان کے جلو میں کچھ اور حضرات بھی موجود ہیں۔ جنگلی حیات سے دل چسپی کے سبب، ہم نے تصویر کو غور سے دیکھا چونکہ اس وقت عینک ہم دست نہ تھی، تو اول تو یہ گمان گزرا کہ شاید انسداد بے رحمی حیوانات والے کہیں چھاپہ مار کر محبوس جانور کو واگزار کروا رہے ہیں۔ چونکہ قیام غسل خانہ اب تک جاری تھا چنانچہ قیاس آرائی نے یہ بھی سجھایا کہ ممکنہ طور پر ملک میں غذایت، خصوصا لحمیات کی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی مولوی، مفتی صاحب لوگوں کو خرگوش پالنے اور اسے جزو دستر خواں بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں اور ان کے آس پاس کھڑے حضرات محکمہ صحت کے اہل کاران۔ یہ تو بعد میں عینک کی دستیابی پر تفصیل دیکھی، اور کئی غلط فہمیاں رفع ہوئیں۔ پہلے تو یہ کہ وہ خرگوش نہیں، بلکہ خرگوشنی تھی اور وہ بھی حاملہ۔ آس پاس کھڑے لوگ، جو ہماری نگاہ کوتاہ بین کو خالص پنجابی نین نقش اور حلیے کے دکھائی دیۓ، وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی، امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا اور کسی غالبا خفیہ \"hafi\"امریکی ادارے، \”نیشنل پوسٹ سائنٹفک اتھارٹی\” کے اہل کار نکلے۔ جو جبہ و دستار پوش، ریش دراز صاحب خرگوشنی کو ہتھیلی پر اٹھاے ہوۓ تھے، وہ ہمارے ہم لقب ہونے کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی ثابت ہوۓ جو اس خرگوشنی کو ہمراہ لئے ایک چھوٹے طیارے میں اڑنے اور اس پر سائنسی تجربات کر کے دنیاے علم میں انقلاب برپا کرنے کا ڈول ڈال رہے تھے۔ الحافی صاحب کے اس تجربے کے گواہان میں جامعہ پنجاب، کومسیٹس یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمائندے بھی موجود بتاے گئے تھے۔

آپ سے کیا پردہ، یہ خادم ایک سائنسی شعبے میں نام نہاد ڈگری رکھنے اور سائنسی طرز فکر کا داعی ہونے کے باوجود تجربے سے متعلق پریس ریلیز کو، بار بار پڑھنے کے باوجود سمجھنے سے قاصر رہا۔ زیادہ با علم دوستوں خصوصا مخدومی عاصم بخشی صاحب وغیرہ سے استمداد کی خاطر، پریس ریلیز کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ ہمارے ممدوح، اور اردو سائنسی جریدے \”گلوبل سائنس\” کے بانی مدیر محترم علیم احمد پہلے ہی اسے سمجھنے میں اپنی بے بضاعتی کا عاجزانہ اعتراف کر چکے ہیں۔

\” میگنیٹو ہائڈرو ٹراپزم ’’ایم ایچ ٹی‘‘ کا سائنسی پس منظر واضح کرتے ہوئے اسے ’’ہر جگہ موجود‘‘ اور ’’ہر صلاحیت کا حامل‘‘ مظہر قرار دیا گیا جس کا تعلق مقناطیسی میدان کی ہائیڈروجن عنصر پر اثر پذیری سے ہے۔ یہ مظہر (یعنی ایم ایچ ٹی) جزوی طور پر موج نما ’’بے وزن‘‘ ذرّے ’’میگنیٹرون‘‘ پر منحصر ہے جو کسی ’’ویکٹر وجود‘‘ کی مانند برتاؤ کرتا ہے یعنی اپنے اسکیلر خطوط سے ویکٹر کے اثرات پیدا کرتا ہے۔\”۔

پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب الحافی صاحب ایک عدد ویب سائٹ کی ملکیت کے سزاوار ضرور ہیں، مگر غالبا اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی\"hafi نظر بد سے محفوظ رہنے کی خاطر، یا پھر \”نہ کہ عطار بگوید\” کے مصداق، انہوں نے اپنی تحقیق کو معروف سائنسی جرائد اور علمی ویب سائٹس سے دور رکھنا مناسب خیال کیا ہے۔ ان کی اپنی ویب سائٹ اہل وطن میں اردو کے ذوق کی کمیابی کے سبب مجبورا انگریزی میں ہے۔ ان کی سائنسی تحقیق اس خادم کی نالائقی کے سبب سر کے اوپر سے گزر گئی اور انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کا بھی کھل کر اظہار نہیں کیا۔ مگر ان کی ویب سائٹ کی زبان ہی پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ وہ غایت درجے کے سامراج دشمن واقع ہوۓ ہیں۔ انہوں نے انگریز کی صدیوں کی غلامی کا بدلہ لینے کا، ن م راشد کی ایک نظم میں مذکور ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام لینے کا طریقہ تو یقینا طبعی شرماہٹ اور مولویانہ وضع قطع کے سبب اختیار نہیں کیا، مگر اس کی کسر اس کی زبان سے من چاہا سلوک کر کے پوری کی ہے۔ لوگ باگ یونہی شیکسپئیر کو سر پر چڑھاتے ہیں کہ اس نے لگے بندھے انگریزی قواعد کے اصولوں کو توڑ کر زبان، اسماء، اور افعال کا خلاقانہ استعمال کیا ہے۔ شیکسپئیر نے شاید ایک دو جگہ ایسی جسارت کی ہوگی، ہمارے پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب الحافی صاحب نے تو ہر ہر سطر میں بحر ہزج میں بحر رمل ڈالنے کا کمال انگریزی زبان میں دکھایا ہے، اور ایسا کہ بڑے بڑے انگریزی دانوں کو چکرا دے۔ ایک نمونہ ملاحظه ہو:

Hafi holds a remarkably copious and plentiful list of distinct honours and laurels۔ He is an elevatedly giant vanquisher of over 11 regional and 9 international awards including The Century Merit Award۔۔

ہمارے کچھ کوتاہ نظر دوست علامہ اقبال، سر سید احمد خان وغیرہ پر، برطانوی سامراج سے خطابات قبول کرنے کے سبب نکتہ چینی کرتے ہیں۔ غالبا ایسوں کی خردہ گیری اور طبعی سامراج بیزاری کے سبب، ہمارے پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی صاحب نے \”سر\” کا خطاب لینا قبول تو کیا، مگر مالٹا نامی ملک سے۔۔۔ واضح رہے کہ یہ یورپ میں واقع جزیرے کا نام ہے جہاں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن اسیر رہے، مبادا کہ سیدھے سادھے قارئین اسے سرگودھا یا ہری پور کے باغیچوں کی پیداوار سے خلط ملط کردیں۔

الحافی صاحب کی سائنسی خدمات کا، ہمارے \”لبرل فاشسٹ\” سائنسدانوں کی جانب سے پس پشت ڈالنا تو سمجھ آتا ہے کہ ان پر سدا سے غیروں\"hafi03\" سے مرعوبیت کا الزام رہا ہے ۔ تعجب ہوتا ہے تو \”اسلامسٹ\” دوستوں کی بے حسی پر، جو ایسے شرعی حلیے کے حامل جوہر قابل کو اب تک گوشہ گمنامی سے منظر عام پر لانے میں کوتاہی برتتے رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب موصوف، اپنی ویب سائٹ کے مطابق، نرے فزکس کے ماہر نہیں ہیں بلکہ پورے ترانوے علوم کو پانی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آفات کے شکار ہونے والے لوگوں کی راحت کاری میں بھی عالمی سطح پر مصروف رہے ہیں۔ خادم ایک بار پھر اعتراف ندامت کرتا ہے کہ اسی شعبے سے مدتوں متعلق ہونے کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر الحافی کے نام نامی سے آج تک واقف نہ ہو پایا۔ یقینا اس میں بھی ان کی گوشہ گیری اور نام و نمود سے بیزار طبیعت کو دخل رہا ہوگا۔

آخر میں، اس دور کی بے بضاعتی کا ایک نوحہ۔ آج اردو ادب و صحافت اس قدر کم مایہ ہو چکے ہیں کہ ایسے نابغہ عصر کا انتہائی اجمالی تعارف کروانے کا جوا، اس خادم جیسے کوتاہ قلم کے گلے میں آن پڑا ہے۔ کہیں ابن انشا، ابن صفی یا محمد کاظم کے پاے کے ادیب آج حیات ہوتے، تو استاد الہ دین چراغ چشتی نظامی ریواڑوی، استاد محبوب نرالے عالم اور الف المحرا ث جیسی زندہ جاوید شخصیتوں کے خاکوں میں پروفیسر ڈاکٹر قاضی اورنگزیب الحافی صاحب کے شایان شان مضامین کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ بہر کیف، اس خادم نے آغاز کردیا ہے۔ یاران نکتہ داں اسے صلاے عام سمجھیں۔ عوام و خواص کے مفاد کے پیش نظر، پروفیسر ڈاکٹر صاحب موصوف کی ویب سائٹ کا پتا درج ذیل کیا جاتا ہے۔ میں نہیں، کوئی تو اس پار اتر جائے گا ۔ مورے سیاں جی اتریں گے پار، ندیا دھیرے بہو۔۔۔۔

About Prof. A. Z. Al Hafi

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments