قندیل بلوچ اگر ایک مرد ہوتا


\"aaliaکاش قندیل بلوچ ایک مرد ہوتا اور داڑھی رکھ سکتا۔ علی شریعتی نے کہا تھا، مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے ان عورتوں کو دیکھ کر جو اپنے اوپر لگا بدنامی کا دھبہ مٹانے کے لئے داڑھی نہیں رکھ سکتیں۔ قندیل بلوچ اگر مرد ہوتا تو داڑھی رکھ کر اپنے اوپر سے بد نامی کے دھبے کو دھو لیتا۔ عورت گناہ کی تلافی کرنا چاہے تو کیا کرے؟ عورت سے گناہ سر زد ہو جائے وہ خدا سے معافی مانگ بھی لے، جتنی بھی نمازیں پڑھ لے اس کی تلافی نہیں ہے۔ جبکہ مرد گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور نیک بنتا ہے تو سب سے پہلے داڑھی رکھتا ہے۔ حج کرنے جاتا ہے۔ لوگ اس کے سات خون معاف کر دیتے ہیں۔ مگر افسوس قندیل بلوچ عورت ہونے کے ناطے داڑھی رکھ کر اپنے گناہ معاف نہ کرا سکی۔

قندیل بلوچ کو کس نے مارا؟ پولیس کا کہنا ہے کہ قندیل بلوچ کے بھائی نے غیرت میں آکر قندیل بلوچ کا خون کر دیا۔ اچھا  تو وہ اور کیا کرتا بے چارہ؟ سارا محلہ اس پر تھو تھو کرتا تھا۔ اس کی بہن کے کارنامے اسے ہر گلی کی نکڑ پر لوگ روک روک کر سناتے، کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے تبھی تو اس نے طیش میں آکر اتنی خوبصورت، پیاری بہن کو منہ پر تکیہ رکھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجھے حیرت ہے غیرت کا یہ انمول جذبہ حقیر مخلوق عورت کو کیوں عطا نہیں ہوا؟ ہزاروں لاکھوں بد کردار، چور، ڈاکو، اچکے، قاتل، نوجوانوں کی ماؤں اور بہنوں نے کبھی غیرت میں آکر اپنے بھائیوں، بیٹوں کا قتل کیوں نہیں کیا؟ بیٹا چور ہو، بھائی قاتل ہو تو ماں اور بہن عدالتوں کے چکر لگاتے، رحم کی اپیلیں کرتی تھکتی نہیں۔ کبھی کوئی قندیل بلوچ غیرت کے نام پر اپنے بھائی کا قتل کیوں نہ کر پائی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت غیرت جیسے عظیم جذبے سے سرشار نہیں۔ یا پھر اس کے بر عکس شاید مرد کا دل اس محبت سے منور نہیں جو کسی ماں کو قاتل بیٹے کے لئے رحم کی اپیل کرنے اور بہن کو بھائی کی جائیداد کے حصے کے واسطے قرآن سے شادی کرلینے پر مجبور کرتی ہے۔ کاش مرد کو بھی یہ جذبہ ودیعت کیا ہوتا تو قندیل آج دل میں ہزاروں خواہشوں، آرزووں کے دیپ جلائے ان کے پورے ہونے کی آس میں زندہ ہوتی۔ کاش مرد کے دماغ کی بجائے، دل پر عورت کی حکمرانی ہوتی۔

قندیل کو اس کے بھائی نے قتل نہیں کیا۔ قندیل کو میڈیا کی سفاک ریٹنگ نے قتل کر دیا۔ ٹیلی ویژن کے پرائم ٹائم کا ایک گھنٹہ ایک ان پڑھ، \"Qandeel-Balochپسماندہ علاقے کی بد نام، شہرت کی متلاشی لڑکی پر خرچ کرنے کا مطلب آپ جانتے ہیں؟ یہ وہ وقت ہے جس میں حالات حاضرہ کے اہم ترین موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ اس ایک گھنٹے میں ملکوں اور حکمرانوں کی تقدیر کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ میڈیا نے اس ایک گھنٹے کا سو گنا سود اور لگان سبھی کچھ قندیل سے وصول کر لیا۔ مشہور ہونے کی خواہاں یہ بے وقوف لڑکی نہ جانتی تھی کہ یہ سودا بہت مہنگا ہے جو اس کو اپنی جان دے کر چکانا پڑے گا۔ اس ایک گھنٹے میں اس کی ذات کی دھجیاں اڑائی گئیں اور وہ ہنستی رہی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ خوش حال اور تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق نہ رکھتی تھی اور پھر ٹی وی پر آنے کا، مشہور ہونے کا، امیر ہونے کا شوق بھی تھا۔ اس کا انٹرویو کرنے والے خواتین و حضرات بھی شہرت اور دولت کی خاطر ہی وہ کام کر رہے ہیں۔ قندیل کی اور ان کی خواہشات میں زیادہ فرق نہیں۔ میڈیا اس کے گھر تک پہنچا اس کی نجی زندگی کے راز فاش کئے اور زندگی ادھیڑ کر رکھ دی۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں قندیل نے مشہور ہونے کے لئے غلط راستے کے انتخاب کیا۔ صحیح راستے کے انتخاب کی چوائس جس کے پاس موجود ہو وہ کبھی غلط راستہ نہیں اپناتا۔ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں ڈرامے بنانے والی اس انڈسٹری نے اسے قبول نہ کیا۔ ہر روز ایک نئی فلم بن رہی ہے لیکن قندیل کو لینا کسی نے گوارہ نہ کیا؟ تو پھر وہ کیا کرتی۔ نہ وہ پروفیسر بن سکتی تھی نہ مذہبی اسکالر نہ ہی ٹی وی اینکر ۔۔ ایک اعتراض اس پر بلکل صحیح کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ویڈیوز میں انتہائی نامناسب کپڑوں کا استعمال کیا۔ بانو قدسیہ ایک جگہ لکھتی ہیں۔ جو عورت برقع پہنتی ہے وہ چادر اوڑھنے والی کو برا سمجھتی ہے۔ جو چادر پہنتی ہے وہ دوپٹہ اوڑھنے والی کو برا جانتی ہے۔ جو دوپٹہ لیتی ہے وہ دوپٹہ نہ لینے والی کو فاحشہ جانتی ہے اور جو دوپٹہ نہیں لیتی وہ سلیو لیس پہننے والی کو بے حیا کہتی ہے۔ قندیل کے نا زیبا لباس پر اعتراض وہ قوم کر رہی ہے جو فحش سائیٹس دیکھنے میں دنیا میں صف اول میں ہے۔ یہ وہ قوم ہے جہاں گزشہ برس چودہ سال کی عمروں کے بچے اور بچیوں کے خلاف جنسی تشدد کے 3,768 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ 939 عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ 279  خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ 143  عورتوں کو تیزاب پھینک کر یا جلا کر مار دیا گیا۔ 833 خواتین اغواء ہوئیں۔ 777  عورتوں نے خود کشی کا ارتکاب کیا۔ یہ میں نہیں کہہ رہی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ برس کی رپورٹ بول رہی ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستانیوں کی بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ عورت پر ظلم و ستم، تیزاب پھینکے جانے، انتہائی قریبی یا محرم رشتے داروں کے ہاتھوں ریپ ہونے، جلا کر مار دئیے جانے یا ونی کر دینے کے واقعات صرف ایک پروپیگنڈا ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

قندیل بلوچ کو قندیل بلوچ بنایا کس نے؟ ہم نے؟ جب اسے کوئی راہ سجھائی نہ دی تو اس نے خودکشی کرنے کی بجائے ایک نئی راہ نکال لی۔ سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیو اپ لوڈ کر دی۔ وہ جانتی تھی کہ یہاں یہ طریقہ کامیاب ہوگا۔ اس کی ویڈیو پر ہزاروں لاکھوں لائکس اور کمنٹس اس بات کے گواہ ہیں کہ قندیل بلوچ کو قندیل بلوچ ہم نے بنایا ہے۔ اس کے کردار پر تھو تھو کرنے والوں نے درجنوں بار اس کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ قندیل ایسی منافق نہ تھی۔ ہاں وہ ہٹ دھرم ضرور تھی۔ قندیل بلوچ کی ہٹ دھرمی نے اسے مروا دیا۔ اگر وہ مقام و مرتبہ حاصل کرنے اور اپنے مقصد کو پانے کے لئے اتنا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتی تو شاید بچ جاتی۔ لیکن مقصد پورا کرنے کے لئے اس کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی داد تو دے دیجئیے۔ یقیناً بچپن سے جوانی تک جس قسم کی مشکلات کا مقابلہ اس نے کیا ہو گا، بہت سے تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن وہ دھن کی پکی تھی تھک کر نہ بیٹھ سکی۔ ہم کتنے عجیب ہیں اپنا ہر کام اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر بات میں اللہ مالک ہے، اللہ مالک ہے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ اور جو کام اللہ نے کرنے ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments