خود ساختہ دانشور، حیوان اور اشرف المخلوقات


\"Afshanحیوانی طرزِ عمل کا مطالعہ یعنی ETHOLOGY کے مطابق جانوروں کے کسی بھی گروہ کو عموماً تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے : ایلفا، بِیٹا اور اومیگا۔

ایلفا (Alpha) کسی ریوڑ یا گروہ میں وہ انفرادی مقام رکھتا ہے جو سربراہ کا ہوتا ہے۔ جس کو سرداروں کی سی اہمیت دی جاتی ہے یا اختلاف بھی پالا جاتا ہے۔ یہ نَر بھی ہوسکتا ہے اور مادہ بھی یا پھر دونوں مل کر ایک جوڑے کی صورت گروہ کی سربراہی کرتے ہیں۔ خیر یہ تو نوع پر منحصر ہوا کرتا ہے کہ کِس پَرجاتی سے تعلق ہے مگر یہ امر مسلم ہے کہ خوراک میں حصے سے لے کر ساتھی چُننے تک ایلفا کو ترجیحی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ مقام انہیں جسمانی طاقت، لڑنے بھڑنے کی مہارت یا پھر مضبوط گروہی اتحاد کے باعث ملتا ہے۔ جبکہ بعض گروہوں میں تو افزائشِ نسل بھی صرف یہی کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایلفا کی جگہ لینے کیلیے بِیٹا (Beta)، جو کہ گروہ میں نائب یا حریف ہوتا ہے، لڑائی کرکے اس کو زیر کر لیتا ہے اور بیٹا سے ترقی پا کر خود الفا بن جاتا ہے یا پھر ایلفا کی موت کے بعد اسے یہ مقام مل جاتا ہے ۔ مگر یہ بات طے ہے کہ الفا کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ الفا اور بیٹا کے علاوہ تیسری مخلوق اومیگا (Omega) ہوتی ہے جو مطیع النفس، منکسر المزاج یا آسان الفاظ میں گروہ کی ناپسندیدہ ترین، نچلے درجے کی مخلوق، جو کسی بھی سماجی تنظیمی ڈھانچے کے سب اراکین کی اطاعت گزاری اور غلامانہ انداز سے زندگی بتا لیتی ہے۔

یہ تمہید جو باندھی ہے تو خیال کی وجہ وہ وڈیو کلپ ہے جو رواں برس مئی کے مہینے میں آن ائیر ہوا لیکن دیکھنے کا اتفاق بیشتر افراد کو \"Oryaآج کل ہی میں ہوا۔ مذکورہ وڈیو میں ایک مشہورِ زمانہ دانشور گھر اور انسانی معاشرے کا تنظیمی ڈھانچہ سمجھانے کے لیے کتے اور کتیا کی مثال دیتے پائے گئے۔ ان کے بقول کتا باہر گھومتا پھرتا ہے اور کتی یعنی عورت بچے پالتی ہے ورنہ بھیڑیا ان کتوروں کو کھا جائے۔

بھئی سبحان اللہ ایسی سوچ پر اور ماشا اللہ ایسی دلیل و منطق پر۔ اول تو ان صاحبِ عقل و دانش کو اپنے گھر کی خواتین ہی کا خیال آجانا چاہیے تھا۔ بالفرض اُنہیں بھی اسی کیٹیگری میں رکھ چھوڑا ہے تو یہی دھیان کرلیتے کہ لفظ \”اشرف المخلوقات\” کا مفہوم کیا ہے۔ چلیے یہ بحث بھی چھوڑیے۔ جانوروں کی بات کی ہے تو جانوروں ہی کی معاشرت سے چند امثال پیش کیے دیتی ہوں۔\"1\"

چرغ یا لگڑ بھگا مادر سری کی سب سے بڑی مثال بن کر ابھرتے ہیں۔ جو قبائل کی صورت زندگی گزارتے ہیں جس میں اراکین کی تعداد نوے تک چلی جاتی ہے۔ یہاں مادہ لگڑ بگڑ ہر صورت غالب ہی تصور کی جاتی ہے چاہے مد مقابل درجہ بندی میں سب سے بہترین نر ہی کیوں نہ ہو۔ شجرہ ان میں ماں سے چلتا ہے۔ نر تو دو سے چھ برس کی عمر کے دوران قبیلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ افزائشِ نسل وغیرہ کے لیے آپس میں ایک قبیلہ کتنا ہی جھگڑ کر فیصلہ کرے لیکن اجتماعی دفاع، خوراک، بچوں کی حفاظت اور غاروں وغیرہ کے معاملات سب مِل کر دیکھتے ہیں۔ یہی حالات بھیڑیوں کے خاندان میں ہوتے ہیں۔

اگلی مثال بن مانس، گوریلا، بندر اور لیمرس کی لگا لیں۔ یہاں لڑائی جھگڑے اور گروہی سیاست میں کامیاب چاہے ایلفا یعنی سردار کا روپ دھار لے لیکن مادہ اپنی نسل بڑھانے کے لیے انتخاب خود کرتی ہے۔ اور ایک طویل دلچسپ تحقیق ہے ان کی معاشرت کے بارے میں جو کہ شاید ہمارے خود ساختہ مذہبی اسکالر کو پڑھنے کی فرصت نہ ہو۔\"2\"

افریقی جنگلی کتے بھی اُس کچھار کی حفاظت کرتے ہیں جہاں مادہ نے زچگی کے عمل سے گزرنا ہو۔ کہیں بھاگ نہیں جاتے اس وقت میں۔پھر آجایے وھیلز کی جانب جو مادر شاہی کی عمدہ مثال ہیں۔ مکمل طور پر بڑی ہوجانے والی اولاد جس میں نر مادہ دونوں شامل ہوتے ہیں وہ ماں اورکا وھیل کے ساتھ ہی گروپ میں گھومتے ہیں اور وہی شکار بھی کرتی ہے۔

یاد رہے کہ ہاتھیوں کے غول کی سربراہی سب سے بڑی عمر والی ہتھنی کرتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد پورا غول اس کی پرورش اور حفاظت کرتا ہے۔ ان میں نر ہاتھی پندرہ سے بیس برس کی عمر میں الوداع کہہ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہتھنیاں بھی گھر ہی رہتی ہیں والی مثال دی جائے؟ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہ مادہ جانور اپنے بچوں کو پالتا اور کھانے کا انتظام دیکھتا ہے؟

کتے کی مثال دے دی، یہ یاد نہ رکھا کہ شیرنی کیا کرتی ہے۔ شکار چُننا، پیچھا کر کے حملہ آور ہونا اور سب کو کھلانا۔۔۔ یہ سب ٹاسک \"Herdشیرنیوں نے جسامت کے حساب سے آپس میں تقسیم کررکھے ہوتے ہیں۔ سب ان ہی کے ذمہ ہوتا ہے،شیر کے نہیں۔

آخری مثال شہد کی مکھی کی لکھ رہی ہوں۔ جی ہاں اس ہی مکھی کی جس کی مثال پاک رب نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے ہاں بھی عورت راج کی مثال موجود ہے۔ جن کا معاشرتی ڈھانچہ ہی ایک مادہ مکھی یعنی ملکہ پر انحصار کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے اپنی تین سالہ زندگی میں پچیس ہزار کے قریب دیے انڈوں میں سے پچانوے فیصد کارکن مکھیاں جبکہ پانچ فیصد نکھٹو پیدا کرتی ہے۔ نکھٹو۔۔۔

اور ان سب باتوں کے بعد میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ عورت کے کام کرنے پر معترض یہ لوگ کھیتوں میں مرد کا ہاتھ بٹاتی خواتین کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ دستکاری، سلائی، مال مویشی سنبھالتی، اینٹوں کے بھٹے اور سڑکوں پر روڑی کوٹنے میں شریک مزدور عورتیں کیا کریں ؟نرسنگ اور طب کے شعبے سے وابستہ خواتین بھی کتیا بن کر گھروں میں بچے پیدا کرکے بس پالتی رہیں؟درسگاہوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی استانی کیا کرے؟جسے آپ جمعدارنی کہتے ہیں وہ \"4\"سڑکیں اور خواتین کے بیت الخلا صاف نہ کرے تو کیا آپ کیجیے گا؟ جو مرد برسوں پردیس کاٹتے ہیں پیچھے ان کے خاندان کا شیرازہ جوڑ کر رکھنے والی سب عورتیں مرد ڈرائیورز اور گاڑیاں رکھ لیں؟ ہے نا؟ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین کو ایک ناسور کی طرح کاٹ کر پھینک دینے سے آپ کا نظامِ زندگی مکمل طور پر آپریٹو رہے گا؟ ہمیں بھی بتایے۔

شاہ مادری کی بات کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہم پر بی بی خدیجہ کے کیا احسانات ہیں؟ وہ کہ جن کی دولت نے پیغمبرِ دو جہاں کو کسبِ مال کی فکر سے آزادی دی۔ جن کی دولت کارِ نبوت کی پیش رفت پر خرچ ہوئی

\”مجھے اللہ تعالی نے کبھی بھی [خدیجہ] سے بہتر کوئی متبادل خاتون عطا نہیں فرمائی۔ انھوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور انھوں نے اپنی دولت خرچ کرکے میرے حق میں ایثار کیا جبکہ دوسروں نے مجھ پر پابندیاں لگا رکھی تھیں۔\"Lioness\”

یہ حوالے سیرت النبی کی کتب میں موجود ہیں۔ اور یہاں ان کا تذکرہ محض اس مقصد کے لیے کیا ہے کہ اگر آپ ایسے ہی دین کے ٹھیکے دار بنے ہیں تو اس بات سے انکار کیسے کریں گے کہ اُم المؤمنین کے مال و دولت نے نبوت کے ابتدائی ایام کو کس طرح آسان کیا۔

خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ ہر بار چھڑے گی جب جب اخلاقیات کے علمبردار اور مذہب کے ٹھیکےدار اشرف المخلوقات کا مفہوم پسِ پشت

ڈال کر موجودہ زمانے کے تقاضوں کو سمجھے بنا اپنے بودے دلائل سے معاشرے کو ترقی و سکون کے معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments