قندیل بجھ گئی!


قاسم علی

\"qasimایک اور مرد کی غیرت کے آبگینوں کو ٹھیس پہنچی۔ حوا کی ایک اور بیٹی دامن پر بےحیائی کی تہمتوں کے داغ سجائے موت کی اندھی وادی میں اتر گئی۔ وہ جن کی زبان کل تک یہ کہتے نہ تھکتی تھی کہ قندیل بلوچ جیسی بے حیا لڑکی کو مر جانے چاہیے، آج اُس کے مرنے پر صفِ ماتم بچھائے بیٹھے ہیں۔ آج انہیں دم توڑتی انسانیت کا خیال رہ رہ کر ستاتا ہے۔ وہ جو اِسے وطن کے نام پر بدنما دھبہ قرار دیتے تھے، اب اُس کے قاتل بھائی کو معلون قرار دینے میں بھی پیش پیش ہیں۔

قندیل بلوچ کا قاتل کون ہے؟ کیا قاتل صرف اُس کا بھائی ہے یا اُس کا بھی کچھ دوش ہے جس نے اُس کے بھائی کو قتل پر اُکسایا۔ اور قندیل کے بھائی کو قتل پر اکسانے والا کون ہے؟ قاتل یہ بیمار معاشرہ بھی ہے۔ میں اور آپ بھی ہیں۔ آخر یوں ہی بیٹھے بٹھائے اُس پر یہ کشف تو نہیں نازل ہوا ہوگا کہ اُس کی بہن ایک فاحشہ ہے اور اُسے مر جانا چاہیے۔ کبھی کسی دکان پر سودا سلف لینے گیا ہوگا تو دکان دار نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے اُس سے اُس کی بہن کا حال پوچھا ہوگا۔ کبھی کسی گلی سے گزرا ہو گا تو چوراہے پر کھڑے اوباشوں کے طنزیہ جملے اُس کے ذہن پر ہتھوڑے بن کر برسے ہوں گے۔ کبھی کسی عزیز کے گھر گیا ہوگا تو اُن کی نفرت بھری نگاہوں کے تیر اُس کے وجود میں پیوست ہوئے ہوں گے۔ کبھی یوں بھی تو ہوا ہو گا کہ وہ کسی ٹھرکی اُدھیڑ عمر بزرگ سے ملا ہوگا۔ اُس بزرگ نے فیس بک پر موجود قندیل بلوچ کی متنازعہ ویڈیوز کا حوالے دیتے ہوئے اُسے بہن کو لگام دینے کا مشورہ دیا ہوگا۔ غرض ہر ایک نے حسبِ استطاعت اُس کی غیرت کو جوش دلانے میں اپنا حصہ ڈالا اور جب وہ آنکھوں میں خون اُتارے، بہن کی گردن دبانے لگا تو یہ سب پارسا لوگ دانتوں میں انگلیاں دبائے تماشہ دیکھنے لگے۔ اب انہوں نے پینترا بدلا اور لگے قاتل کو لعن طعن کرنے۔ انسانیت کی حرمت کی دہائی دیتے ان منافقین کو خود سے گھن بھی نہیں آتی۔ مگر کیا کیجئے کہ اب منافقت ہی شرافت کا معیار ٹھہرا۔

\"Qandeel5\"کسی سیانے نے کہا تھا کہ مکمل انصاف ایک واہمہ ہے۔ ہم اپنے تئیں شاید قاتل کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کر مطمئن ہو جائیں کہ لو ہم نے انصاف کا بول بالا کردیا ۔ مگر کیا جب قاتل پھندے سے جھول گیا تو انصاف کے سب تقاضے پورے ہو گئے؟ کیا ان حالات پر گرفت کی جا سکتی ہےجنہوں نے قندیل بلوچ کو قندیل بلوچ بننے پر مجبور کیا؟ کیا آپ اُن ہزاروں غیرت مند مردوں عورتوں کو کٹہرے میں لا سکتے ہیں جنہوں نے قندیل بلوچ کے بھائی کی جھوٹی غیرت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو مسلسل ہوا دے کر شعلہ بنایا؟ کیا آپ اُن لاکھوں ٹھرک کے مارے افراد کا محسابہ کر سکتے ہیں جن کی منقاقت اور ٹھرک قندیل بلوچ جیسے کرداروں کو معاشرے میں پیدا ہونے اور پنپنے کے لیے سازگار حالات فراہم کرتی ہے؟ کیا آپ  خود کو منبر والوں پر محض سوال تک اُٹھانے کی بھی جرات کر سکتے ہیں جو خفیہ طور پر ہوٹلوں کے کمروں میں اپنی شامیں بھی رنگین بناتے ہیں اور پھر انہی عورتوں پر بے حیائی کے فتوے بھی داغتے ہیں؟ قندیل بلوچ کے قاتل کو تو ضرور تحتہ دار تک پہنچنا چاہئے مگر ساتھ اُن لوگوں کو بھی سزا ملنی چاہئے جنہوں نے پہلے قندیل بلوچ جیسے کردار کو پیدا کیا، اور پھر اُس کے بھائی کو اُس کی زندگی ختم کرنے پر بھی اُکسایا۔ اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو خدارا پھر یہ انسانیت کی تنزلی اور انسانی جان کی حرمت کی راگنی بند ہونی چاہیے۔

قندیل بلوچ کا قصور یہ نہیں کہ اُسے ایک بے حیا، بدچلن اور فاحشہ قرار دیا گیا بلکہ اُس کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی۔ بھلا ایک پدر سری معاشرے میں عورت ہونے سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے۔ جس نے اپنی دستارِ فضیلت اُس کے سر پر دھری وہ آج بھی پارسا اور باحیا ہے کیونکہ وہ ایک مرد ہے۔ وہ قندیل تھی تو قتل کردی گئی۔ اگر مفتیٰ قوی ہوتی تو زندہ رہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments