ہماری غیرت ۔۔۔ ہنسنا ہے یا رونا ہے؟
اگر آپ غریب گھرانے میں پیدا نہیں ہوئے تو غربت کا تصور آپ کے لیے تصوراتی مہم جوئی کے سوا کچھ نہیں لیکن اگر آپ میری طرح غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ احساس محرومی سب سے ہولناک انداز میں اس وقت محسوس ہوتا ہے جب اپنے اردگرد آسائشوں کی فراوانی حسرتوں کی لاش کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ ہاتھ لقمہ اور زبان ذائقہ نوچ لینے کو بے تاب ہو، جسم چیتھڑوں میں بھی پردے کو شرمسار کرے، جب جینا زندگی سے انتقام ہو ایسے میں اگر خدائے ذوالجلال کسی کو قناعت کی دولت سے نہ نوازے تو آیا اسے اپنے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے معاشرتی نا ہمواری کو للکار کر اپنے انداز سے (جس سے مجھے بھی اختلاف ہے ) زندگی گزارنے کا اور آگے بڑھنے کا کوئی حق نہیں؟
ایسے ہی کسی دن اپنے حالات تے تنگ آ کر فوزیہ عظیم نے حالات کے جبر کے خلاف اپنا سب کچھ اتار پھینکا، اس معاشرے کی روایات کو للکارا جو مجرا کرنے والی کو طوائف مگر دیکھنے والے کو تماش بین کہتا ہے۔ مگر آندھیوں میں جلتی رہنے کی جستجو میں سرگرداں بے باکی سے کاروباری و مفتی کو للکارنے والی قندیل گلا دبا کر اپنے ہی آنگن میں خاموش کر دی گئی۔
قندیل بلوچ کی بے پردگی پر شکن آلود ہونے والے ماتھوں کو مبارک کہ اس کا ناپاک وجود اس دھرتی پر چند لمحوں کی امانت ہے۔ ایک غیور بھائی کی سوئی ہوئی غیرت سارے پاکستان کی گالیوں سے تو نہ جاگ سکی البتہ مفتی صاحب کی ٹوپی کی بےتوقیری نے اسے جگا ڈالا۔ لوگ اس کی بے حیائی اور بے باکی کو قتل کا جواز کے طور پر پیش کریں گے، اس کے خون سے رنگی زمین پر عدالت لگا کر اس کے بھائی کو بری کر دیا جائے گا، میڈیا چار دن سینہ کوبی کرے گا۔ انسانیت تو ایدھی کے ساتھ مرگئی اب تو لوگوں کی دو ہی قسمیں بچی ہیں۔ اچھے لوگ اور برے لوگ۔ ان میں سے بھی صرف اچھوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے برے دن رات مر رہے ہیں اور پاکستان میں برائی کے خاتمے تک مرتے ہی رہیں گے۔ مگر آخر یہ غیرت کا سیلاب عورت کی ذات کو تاراج کرنے کے لئے ہی کیوں منہ زور ہے۔ کہیں قندیل، کہیں زینب تو کہیں عنبرین، ہمیشہ اس نام نہاد غیرت کا نشانہ آخر ایک کمزور عورت ہی کیوں بنتی ہے؟ کبھی آپ نے سنا کہ اپنی بہن کو تعلیم نہ دلوا سکنے پر ایک بھائی نے غیرت میں آ کر اپنی زندگی ختم کر لی۔ ایک باپ نے درست پروش نہ کرنے پر خود کو ٹھکانے لگا دیا ہو۔ حد تو یہ کہ بیوی کے کہنے پر ماں کو مارنے والے بے غیرت بھی غیرت کا نام لے کر بہن کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔
فرض کر لیتے ہیں کہ آپ کے نزدیک عورت کے کوئی حقوق نہیں۔ یہ کھانے پکانے اور بچے پیدا کرنے والی مشین ہے مگر ایک انسان ہونے کے ناطے اسے زندہ رہنے کا حق تو دیں۔ چلیں مان لیتے ہیں قندیل بےحیا تھی مگر زینب نے تو نکاح کیا ہوا تھا آپ نے اسے بھی جلا کر کوئلہ بنا دیا۔ عنبرین نہ تو بے حیا تھی نہ گھر سے بھاگی تھی آپ نے اسے بھی خدائی فوجدار بن کر زندہ بھون ڈالا۔ انسانیت ہم سے مایوس ہو کر منہ موڑ چکی ہے۔ مملکت خدا داد میں آج عورت کا وجود غیرت سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ چلیں آئیں آپ کی مشرقی غیرت کی سربلندی کے لیے قندیل جیسی زندہ عورتوں کو گالی دیں:
خس کم جہاں پاک
بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت اگر پیاسے کتے کو پانی پلا کر جنت کی حقدار ہو سکتی ہے تو امید ہے قندیل نے بھی دو ٹانگوں والے کسی کتے کے ساتھ کوئی نیکی تو کی ہو گی۔
- آئیڈیلزم کی شکار پاکستانی قوم کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا - 27/06/2019
- ہماری غیرت ۔۔۔ ہنسنا ہے یا رونا ہے؟ - 17/07/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).