قندیل، سرخ نشان اور پادری کی ندامت


\"hira نتھینیل ہے تھارن امریکی ادب کے کلاسیکل مصنفین میں شمار ہوتے ہیں جن کا ناول \”دی سکارلٹ لیٹر\” (سرخ نشان) شہرہ آفاق ثابت ہوا۔ یہ ناول لکھ کر نتھینیل نے اس وقت کے قدامت پسند معاشرے میں موجود مذہبی رہنماؤں ( عیسائی ملاؤں) کے مظالم کو آشکار کیا تھا۔ وضاحت کے لیے بتاتی چلوں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگلستان سے قدامت پرست فرقے کے لوگ جوق در جوق آ کر نو دریافت شدہ سرزمین امریکہ میں بس رہے تھے۔ یہ لوگ شدت پسند تھے اور سخت سزائیں دینے پر یقین رکھتے تھے۔ ناول کا پس منظر یہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت اور ایک عیسائی ملا کا آپس میں معاشقہ ہو جاتا ہے۔ وہ دونوں عورت کے شوہر کی غیر موجودگی میں ملتے ہیں اور جنگلوں میں ہونے والی ملاقاتوں کا نتیجہ ایک بچی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عورت اپنے عمل کو چھپاتی نہیں بلکہ فخر سے ایسا بلاؤز پہنتی ہے جس پر حرف \”اے\” لکھا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے خاوند کے علاوہ کسی اور سے محبت کی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کا نام پرل  رکھتی ہے یعنی موتی جس کی نفاست اور پاکیزگی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا اس کے برعکس پادری پشیمان ہوتا ہے اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا ہے۔ ہیروئن اپنے شوہر کو بتا دیتی ہے کہ یہ بچہ اس مولوی کے نطفے سے ہے۔ انجام کار اس عورت کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ دنیا کے سامنے پارسائی کا دعوی کرنے والا پادری تنہائی میں خود کو کوڑے مارتا ہے اور مرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان نفسیاتی کوڑوں سے پادری کے بدن پر وہی حرف \”اے\” ابھر آتا ہے جو اس عورت نے اپنے بلاؤز پر لکھا تھا۔ آج اس ناول کے کردار میرے ذہن میں بگولوں کی طرح چکر کھا رہے ہیں۔ قندیل کے بجھ جانے سے میرے ذہن کے نہاں خانہ میں اور تاریکی ہو گئی ہے۔\"scar\"

قندیل کیا تھی؟ بظاہر ایک فاحشہ، توجہ کی بھوکی، سستی شہرت کی متلاشی ایک قاتل حسینہ۔ قندیل درحقیقت جنسی گھٹن کے شکار ہمارے معاشرے کا ایک رستا ہوا ناسور تھی۔ وہ معاشرہ جہاں مرد کو جنسی جذبات کے اظہار اور تسکین کی پوری آزادی ہے اور عورت کو موم کی مریم سمجھا جاتا ہے۔ قندیل روشنی کا ایک استعارہ ہے، ایک چیخ ہے، ایک درد بھری پکار ہے جو صدیوں سے جاری نسوانی جنسی گھٹن سے ابھری۔ غلاظت کے ریشوں سے بنے اس معاشرے کے چولے پر ایک داغ ہے۔ میری ہمدردی شروع سے ہی اس معصوم لڑکی کے لیے تھی۔ میں مسکراتی تھی کہ جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے کی رہنے والی یہ الہڑ دوشیزہ کس طرح سے آزادی کی باتیں کرتی ہے، جسے اپنی جنسی قدروقیمت کا ادراک ہے، جس کے اپنے خواب ہیں، جس نے علم بغاوت ہاتھ میں تھاما اور گھٹن زدہ معاشرے کے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ میں دل ہی دل میں مسکراتی تھی کہ میری ہم عمر ایک حسینہ کیسے ریٹنگ کے مارے ہوئے میڈیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہے۔ آج جب معلوم ہوا کہ قندیل غیرت نام کی سولی پر جھول گئی ہے تو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی مریم تمام قندیلوں کے مشترکہ گناہوں کے ساتھ آسمانوں پر اٹھا لی گئی ہو۔

منٹو کا ایک لازوال افسانہ \”لائسنس\” بھی مجھے شدت سے یاد آ رہا ہے۔ ایک بیوہ عورت کو پیٹ پالنے کے لیے اپنے شوہر کے تانگے کا لائسنس تو نہیں ملتا لیکن نام نہاد شرفاء اسے چکلے میں دھندا کرنے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسے عوامل ہوتے ہیں جن کے تحت عدم توجہ کی شکار لڑکیاں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ایک ایسے عاشق کے ساتھ نکل جاتی ہیں جو ان کے سوداگر ثابت\"Scarlet-Lett\" ہوتے ہیں۔ جن کی روح چھلنی ہو جاتی ہے، جن کی واپسی کے تمام در بند ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ جسم کو متاع کوچہ و بازار بنانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی ذہانت کو سراہنے والے کم ہوتے ہیں اور جسمانی ابھاروں کو فروزاں کرنے والے ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں ہوتے ہیں۔ بھوکے کے لیے تو حرام گوشت بھی حلال قرار دیا گیا ہے۔ قندیل اور اس جیسی ہزاروں لڑکیاں تو پھر اپنے بدنوں سے ابدان سینچتی ہیں۔ کپڑوں سے ڈھکے وجود کو کوئی نہیں دیکھتا تو بے لباسی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آج ایک اور بنت حوا غیرت زدہ نظام کے ہتھے چڑھ گئی، بے گھر ہو گئی، قندیل بجھ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments