ترکی میں فوجی بغاوت: تاریخ و اسباب


\"zeeshanترکی میں پہلے باضابطہ انتخابات 1950 میں ہوئے جس میں ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں آئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت جاری تھی کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ الزام وہی تھی جو برسوں مارشل لاء کی کوشش کرتے آرمی افسران کا تھا کہ پارٹی میں سیاسی آمریت آ گئی ہے اور جمہوری عمل ناکارہ ہو گیا ہے۔ گرفتاریاں ہوئیں، عدالتی کارروائی چلی جس کے نتیجے میں ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ فوج کچھ عرصہ اقتدار میں رہی الیکشن ہوئے مگر اس کے باوجود ہر دس سال بعد ایک مارشل لاء فوج کی طرف سے نافذ ہوتا رہا۔ 1960 , 1971, 1980 تین کامیاب مارشل لاء کی کہانیاں ہیں۔ ان تینوں مارشل لاؤں کے بعد سیاستدانوں کو پہلے کی طرح گرفتار کیا جاتا ان پر مقدمے بنتے اور پھر کچھ کو پھانسیوں پر لٹکا دیا جاتا یا سزائیں ہوتیں، مگر جب دوبارہ الیکشن ہوتے تو لوگ انہی سیاست دانوں کو ووٹ دیتے۔ 1997 میں اپنے دباؤ سے فوج نے سیکولر ازم کے تحفظ کے نام پر وزیراعظم اربکان کو اقتدار سے معزول کیا۔ دو ہزار دو میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے الیکشن میں فتح پائی اور اردوان 2003 میں اقتدار میں آیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد 2003 (مبینہ طور پر جس میں 200 فوجی افسران ملوث تھے )، 2010 (مبینہ طور پر جس میں اننچاس فوجی افسران شریک تھے ) اور اب 2016 میں مارشل لاء کی کوشش ہو چکی ہیں مگر ناکام رہی ہیں۔

فوج اول دن سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار تک اقتدار میں شامل رہی ہے۔ وہ سیاست دانوں کو حکم دیتی رہی ہے کہ وہ کیا کریں۔ اگر سیاست دان حکم عدولی کرتے تھے تو انہیں براہ راست مارشل لاء سے یا پھر سیاسی جبر استعمال کر کے سزا دی جاتی تھی۔ یہ کہنا کہ سیاست دانوں کی کارکردگی بری تھی ترکی کی سیاسی و معاشی تاریخ سے لاعلمی کا ثبوت ہے۔ مثال کے طور پر 1983 سے 1989 کے دوران مدر لینڈ پارٹی (ANAP ) کے وزیراعظم Turgut Özal کی حکومت رہی انہوں نے ترکی کی انتہائی روایتی اور پس ماندہ معیشت کو بہت ترقی دی۔ مگر فوج کے اثر و رسوخ میں اس وقت بھی کوئی کمی نہ آئی اور اس کا آمرانہ مزاج قائم رہا۔ جب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اقتدار حاصل کیا تو اس کا چونکہ گولن تحریک سے ایک مضبوط تعلق تھا اس نے ترکی میں سویلین اقتدار کو بہت وسعت دی۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ایک سیدھی سادھی سیاسی پارٹی تھی جبکہ گولن تحریک ایک مضبوط نظریاتی تنظیم تھی جس نے ترکی کی عوام اور مڈل کلاس میں خوب پذیرائی حاصل کی۔ یاد رہے کہ ترکی کی عوام اتاترک انقلاب سے اب تک تقریباََ روایتی ذہن کی رہی ہے جبکہ سیکولر فلسفہ کا اثرو رسوخ امراء میں بہت زیادہ رہا ہے۔ گولن سے پہلے رفاہ (جس سے اردگان نے نظریاتی تربیت حاصل کی) بھی عوام میں مذہبی اثرورسوخ حاصل کر چکی تھی۔ 1997 میں معزول ہونے والے وزیراعظم اربکان پر بھی فوج نے اسلامسٹ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا کہ وہ سیکولر اقدار کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ان کی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ہے جسے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے 13 فروری 2013 میں انسانی حقوق سے متصادم قرار دے کر اٹھا لیا۔

اسی طرح 2007 میں جب عبدللہ گل کو صدر بنایا جا رہا تھا تو ترک آرمی نے اپنی ویب سائٹ پر یہ اعلان کیا کہ :اگر تم اسے صدر بناؤ گے جس کی بیوی حجاب کرتی ہے تو یہ بہت برا ہو گا۔\” حقیقت یہ ہے کہ ترکی فوج اتاترک انقلاب کے بعد فاشسٹ نظریہ پر کاربند رہی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور گولن  تحریک نے درج ذیل طریقوں سے فوج کے اثرورسوخ کو کم کیا۔

یورپی یونین میں شمولیت ایک بڑا عنصر رہی جس کی وجہ سے 1980 کے بعد فوج باقاعدہ سے ٹینک لے کر اقتدار پر قبضہ کرنے کو نہیں آئی بلکہ پردہ کے پیچھے بیٹھ کر سیاسی اثرو رسوخ آزماتی رہی ہے۔ ٹینکوں سے فیلڈ میں آ کر اقتدار کی کوشش کا 1980 کے بعد 15 جولائی کو یہ پہلا موقع تھا۔ یورپی یونین میں شمولیت کے لئے بڑی شرط یہی تھی کہ فوج سیاسی عمل سے دور رہے گی۔

سیاسی و معاشی کارکردگی۔ گولن  تحریک اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے نظریاتی تربیت اور مضبوط پارٹی سٹرکچر سے پرعزم سیاسی کارکنان پیدا کئے۔ یہی وہ قوت ہے جو موجودہ مارشل لاء کی کوشش میں ان پرعزم کارکنان کو وزیراعظم اور صدر کی اپیل پر سڑکوں پر لے آئی اور وہ ٹینکوں کے آگے جا لیٹے۔

\"TurkRevolt2\"فوج کا بجٹ انتہائی محدود کر دیا گیا جبکہ اس سے پہلے فوج بجٹ میں اپنی مرضی کی رقم حاصل کرتی تھی۔ بجٹ کی کمی نے فوج کے اثرورسوخ کو یوں کم کیا کہ اب فوج سیکرٹ فنڈ اور سیاسی عمل میں جوڑ توڑ سے محروم ہو گئی اور ادارے کے اخراجات تک ہی محدود رہی۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور گولن تحریک (جس کا فوج میں نظریاتی اثرو رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ) نے سیاسی فیصلہ سازی میں حتی الامکان کوشش کی کہ فوج کو ان معاملات سے باہر رکھا جائے مگر اس کے باوجود فوج فیصلہ سازی میں شامل رہی۔ 2007 میں جب عبدللہ گل سے متعلق فوج نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا تو سیاسی قیادت اپنے فیصلے پر قائم رہی۔

فوج ہمیشہ سے سیاست دانوں پر الزام لگاتی آئی تھی اور خود عدالتی کارروائیوں سے محفوظ تھی۔ اب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے یہ کیا کہ فوجیوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ اس میں 2010 کی مثال سب سے اہم ہے جب حکومت نے الزام لگایا کہ 49 چوٹی کے فوجی افسران منتخب حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس وقت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور گولن تحریک شانہ بشانہ تھی۔ دونوں نے مل کر اس عدالتی کارروائی کو قوت دی- اسی طرح 2003 میں منتخب حکومت کو الٹنے کے الزام کی عدالتی کارروائی چلی۔ دو ہزار بارہ میں دو سو افراد کو سزا ہوئی۔ کچھ افسران معزول ہوئے کچھ کو اتنی خفت کا مظاہرہ کرنا پڑا کہ ملک چھوڑ گئے۔ اور یہاں تک رپورٹ کیا جاتا ہے کہ کچھ افسران نے خود کشی بھی کی۔ ان عدالتی کارروائیوں نے فوج کا مورال انتہائی کمزور کر دیا اور اس میں آرمی ایئر فورس اور نیوی کی ساری قیادت تبدیل ہوئی۔

وہ وجوہات درج ذیل ہیں جس نے فوج کو جواز دیا کہ وہ منتخب حکومت کا تختہ الٹ دے۔

فوج اتاترک انقلاب سے اقتدار میں اجارہ داری رکھتی تھی۔ فوج کی نفسیات پاکستانی فوج کی طرح تھی وہ سٹیٹس کو کا حصہ تھی۔ اس کی اقتدار میں جب گرفت کمزور ہوئی اور سٹیٹس کو میں اس کا وقار کم ہوا تو اس میں ردعمل کی نفسیات نے جنم لیا۔ یاد رہے کہ فوج کی نفسیات کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ بطور ادارہ ہوتی ہے۔ جب ادارہ کا کلچر اور نفسیات ہی اقتدار و اختیار پسند ہو تو اسے اقتدار کی شراکت سے باہر رکھنا آسان نہیں۔ فوج نے 1960 کی طرح اب بھی الزام لگایا کہ اردوان مطلق العنان بن چکا ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ 2003 میں فوج کے جن دو سو افسران پر غداری اور مارشل لاء کی کوشش کا الزام لگا اور انہیں 2012 میں سزائیں بھی دی گئیں۔ گزشتہ سال مارچ 2015 میں ترکی کی اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ وہ بے گناہ تھے اور 2012 کی عدالتی کارروائی انتہائی شرمناک تھی۔ ایسی کسی کوشش کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ اس فیصلے نے فوج کے زخم ہرے کر دیئے اور سب یہ گمان کر رہے تھے کہ اب فوج انتقامی کارروائی کرے گی۔ اس فیصلہ کا فوج پر اثر بہت گہرا تھا۔ فوج اخلاقی طور پر مضبوط ہو گئی تھی اور اسے سیاست دانوں پر بات کرنے کا جواز مل گیا تھا۔

جب تک جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور گولن تحریک ساتھ ساتھ رہے اردوان کی پوزیشن بہت مضبوط رہی۔ تمام اداروں بشمول فوج میں گولن کے حامی بہت زیادہ تھے۔ مگر تین سال پہلے جب اس اتحاد کا خاتمہ ہوا۔ تو اردوان نے ایک تو یہ کیا کہ فوج کو گولن کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ فوج سمیت جن جن اداروں میں بھی گولن کے حامی تھے ان کی جگہ اردوان کے حامی تعینات کئے جانے لگے۔ گزشتہ سال کے فیصلے کو اردوان نے گولن کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا فوج کے اثرو رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی جس کا ایک بڑا مظہر یہ ہے کہ فوج ہمیشہ سے کردستان ورکر پارٹی سے امن معاہدے کی حامی نہیں تھی۔ اردوان نے PKK سے امن معاہدہ نہ صرف ختم کر دیا بلکہ کرد علاقوں میں فوج کے اثرو رسوخ کو بہت زیادہ طاقت دی۔ کرد علاقوں میں فوج مارشل لاء لگائے بیٹھی ہے اور لامحدود اختیارات رکھتی ہے۔ فوج اب اقتدار کی جوڑ توڑ میں دوبارہ سے شامل ہو چکی تھی اور وہ کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی پر چلی گئی۔ فوج کے پاس اردوان کے خلاف سب سے بڑا جواز اردوان کی آمریت اور اداروں میں اردوان کی مداخلت تھا۔

ترکی میں فوج کا احترام ویسا ہی رہا ہے جیسے پاکستان میں، اس کے لئے فوج پروپیگنڈہ مشینری استعمال کرتی رہی ہے۔ مگر مارشل لاء کی کوشش کی ناکامی کے درج ذیل اسباب ہیں۔

فوج کا حد سے زیادہ اعتماد : ہوتا یہ آیا ہے کہ مارشل لاء جب نافذ کیا جاتا ہے تو سرکاری ٹی وی، پارلیمان، وزیراعظم و صدر ہاؤس، دارلحکومت کی پولیس اور اعلیٰ عدلیہ اس کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔ یہاں فوج باہر نکلی اور اس نے سرکاری ٹی وی اور ایئرپورٹ پر قبضہ کر کے مارشل لاء کا اعلان کر دیا وزیراعظم اور صدر اپنا کام کرتے رہے۔ صدر نے عوام سے خطاب بھی کیا اور اپنے فون سے ہر طرف رابطہ میں رہے یعنی مارشل لاء کی قوتیں ان کا فون بھی بند نہ کر سکیں۔

\"TurkRevolt3\"پولیس ہیڈ کوارٹر باقاعدہ فوج کے خلاف سول وار کی کیفیت میں آ گیا اور اس کے افسران صدر و وزیراعظم کی طرح بذریعہ ٹویٹر و دوسرے ذرائع سے عوام سے اپیل کرتے رہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نے فورا حکم دیا کہ فوجی جنہوں نے انقلاب لانے کی کوشش کی ہے انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ سول حکومت کو اس سازش کی پہلے سے خبر ہو گئی تھی اس لئے وہ تیار تھے اور انہوں نے اپنے پارٹی عہدےداروں کو بھی تیار رکھا ہوا تھا۔ یہ کمزور حکمت عملی اردوان کے مخالفین کو بھی جواز دے گئی ہے کہ وہ کہیں کہ یہ سب ڈرامہ تھا۔ مگر میری رائے میں ایسا نہیں تھا۔ اگر ترک فوج کی تاریخ اور اس کا ادارہ جاتی وقار ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ایسا ناممکن ہے کہ فوج محض اردوان کی خاطر اپنا مورال اتنا کمزور کر دے اور 2015 کے فیصلے کے بعد اس کا جو وقار بحال ہوا تھا اسے یوں کھو دے۔

یہ بھی حقیقت نہیں لگتی کہ یہ صرف ایک گروہ کی سازش تھی۔ کیا وہ صرف ایک گروہ تھا جس نے فوج کے پورے ہیڈ کوارٹر کو قبضہ میں لے لیا ؟ یہ پوری دنیا میں فوج کا مزاج ہے کہ اگر کامیابی مل گئی تو پوری فوج سمیٹتی ہے اور اگر ناکامی تو کہا جاتا ہے کہ صرف چند جرنیل ملوث تھے جن کے خلاف چیف آف آرمی سٹاف نے سخت ایکشن لینے کا وعدہ کیا ہے، یوں مورال بھی بلند رہتا ہے، وقار بھی اور ساکھ بھی کہ جناب ہم سب اگر اس پر متفق ہوتے تو مارشل لاء کون سا مشکل کام ہے۔

اب جب کہ اردوان نے گولن تحریک کے لوگوں پر الزام لگایا اسی طرح گولن تحریک کے لوگوں نے اردوان پر مارشل لاء کے ڈرامے کا الزام لگا دیا ہے۔

پر عزم کارکن: جب انہیں بلایا گیا وہ سڑکوں پر آئے اور انہوں نے اپنی سیاسی طاقت کا خوب مظاہرہ کیا۔

قصہ مختصر یہ کہ 265 افراد اس اقتدار و اختیار کے کھیل میں مارے جا چکے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان گناہوں کی سزا بھی بھگت رہا ہوتا ہے جو اس نے نہیں کئے ہوتے۔ عام فوجی سپاہی جس نے افسران کے حکم کی تعمیل کی اسے سڑکوں پر جب پیٹا جا رہا تھا تو شاید اس نے سوچا ہو کہ وہ حکم کی تعمیل کے علاوہ اور کیا کرسکتا تھا ؟ فوج عوام کی خاطر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اردوان کی آمریت پسند سوچ اس وقت عوام کے لئے ہے۔ عوام کو امن و امان، سیاسی استحکام اور ایک مددگار حکومت چاہئے ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات و خواہشات کی جستجو کر سکیں مگر ترقی پزیر معیشتوں میں لوگ اقتدار و اختیار کے کھیل کی قیمتیں چکا رہے ہیں۔ جمہوریت لوگوں کا حق انتخاب ہے، صرف لوگوں کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ووٹ سے سیاسی تبدیلی لائیں، اس کے بغیر تبدیلی کی ہر کوشش فساد بھی ہے اور لوگوں کے حق انتخاب پر ڈاکہ بھی۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments