ایک فاحشہ کی موت پہ اتنا واویلا۔۔۔


فقیہ شہر کی دستار اچھالنے والی قندیل کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ بھائی نے غیرت کے نام پر قندیل کو قتل کر دیا \"hafsa\"مگر یہ بھائی اس وقت کہاں تھے جب زبردستی سولہ سال کی عمر قندیل کے ارمانوں کا خون کرکے اس کی شادی کر دی گئی؟ جب وہ پھولوں کی سیج پر بیٹھ کرسرد مہری کی سل تلے مسلی گئی تھی، اس وقت بھائیوں کی غیرت کہاں سوئی ہوئی تھی۔ جب وہ سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھی تواس وقت کسی بھائی کی غیرت نے کمزور سی ہچکی تک نہیں لی۔

قندیل کے چھ بھائیوں کی غیرت اس وقت بھی نہیں جاگی جب ایک بھائی زبردستی اس بہن کی کمائی لے گیا جو اس کے نزدیک حرام تھی اور قتل کے جواز کی وجہ بنی۔

ایک صاحب کہنے لگے لو فاحشہ کی موت پر اتنا واویلا! ارے صاحب، پاکستان میں تو آپ امجد صابری ہوں یا قندیل۔۔ کسی بھی طرح محفوظ نہیں، جس طرح قندیل کو گالیاں دی جاتی تھیں مگر اس کے فیس بک پیج پر گدھ کے مافق جا کر اس کے جسم کے نشیب و فراز سے لطف اندوز ہوا جاتا تھا اور پھر اسے نوچنے کی آرزو رکھنے والے ہی اسے گندی عورت کا خطاب دے رہے ہوتے تھے، اور ان دہرے معیارات پر کراہت محسوس کرنے کی بجائے ان پر فخر کیا جاتا تھا، بالکل اسی طرح معاشرے کی ہر عورت ایک قندیل ہے، جو کسی نہ کسی سطح پر اس رویے کا شکار ہے، قندیل نے تو ان سب رویوں کو بے نقاب کر دیا تھا۔

قندیل کا قصور یہ تھا وہ جہالت کی جھاڑیاں پھلانگ کر بھاگ گئی، اسے مٹی کی ٹیلوں سے وحشت ہونے لگی اور وہ اپنی زندگی بدلنے کی غرض سے اپنے اوپر ہونے والے تشدد سے منکر ہو گئی، اس کا قصور اتنا تھا کہ اس نے اس مرد زدہ معاشرے کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا، اس کا یہ قصور تھا کہ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک عورت مرد کے بغیر بھی جی سکتی ہے آگے بڑھ سکتی ہے، قندیل نے اپنی شادی کا اقرار بھی بہادری کے ساتھ کیا۔ وہ چاھتی تو اوروں کی طرح مکر جاتی، سچی لڑکی جس کی موت نے جاتے جاتے بھائیوں کی بے غیرتی کا پردہ بھی فاش کر دیا۔

کوئی ہے سوال کرنے والا کہ عزتوں کو عورت کے دوپٹے سے لے کر شلوار کی حدوں تک محدود کردیا گیا مگر بھائیوں کی غلط کاریوں پر کوئی بہن قتل تو دور کی بات ہے، اف بھی نہیں کرسکتی۔

شہوت کے بھوکے کتوں بھیڑیوں کو ننگی فلمیں دیکھنے کے بعد ثقافت یاد آتی ہے۔۔۔ اپنی ماں بہنوں کو گھروں کی باپردہ \”غیرتوں\” پر چڑھی عقیدت کی تہوں کے نیچے دفن کرنے کے بعد معاشرے کی باقی سب عورتیں چلتی پھرتی پستان، رانیں، ہڈیاں اور گوشت کی دکان لگتی ہیں۔۔۔

یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں ساری غیرت عورت کی چھ گز کی چادر اور دو گز کی شلوار کی حد تک محدود ہے مگر اگر یہ شلوار مرد کی ہے تو مردانگی کی علامت کہلاتی ہے۔

قندیل کے بھائی صاحب دس سال تک بہن کی کمائی ڈکارتے رہے، جب کھا کھا کر سانڈ ہوگئے تو غیرت کی چنگاریاں شعلہ بن کر بھڑکنے لگیں۔

قندیل کی موت کا ذمہ دار یہ معاشرہ اور وہ اینکر حضرات بھی ہیں جنہوں نے محض ریٹنگ کی خاطر خود کی تلاش میں گم لڑکی کو ایک جنس سمجھ کر بدنامی کا تمغہ دیا۔ مفتی قوی کو غیرت کے نام پر کوئی خطرہ  نہیں، کل \”دنیا نیوز\” کو دئے گئے انٹرویو میں موصوف فرمارہے تھے تمام عورتیں قندیل کا حشر دیکھ لیں جو عالم دین کا مذاق بناتی ہیں ۔

کیا قندیل کی موت سے اس معاشرے کا سارا گند صاف ہوجائے گا؟ کیا کل سے کوئی برقعے میں لپٹی عورت کے جسم میں اپنی مائکرو اسکوپ جیسی نگاہیں نہیں گاڑے گا؟ کیا اب کسی مرد کو راہ چلتی عورت کے پستانوں کے رنگ سے کوئی مطلب نہیں ہو گا؟ کیا شہوت کے مارے بھوکے بھیڑیے  اپنا شکار ڈھونڈنا چھوڑ دیں گے؟

قندیل جاتے جاتے معاشرے کےان  تمام شریف زادوں سے سوال پوچھنا چاھتی تھی جو اس کو رنڈی، گشتی، چھنال کہتے نہیں تھکتے تھے اور قندیل یہ سوچتی تھی کہ  میں تو ایک جہنم ہوں، پھر کیا ڈھونڈتے ہو مجھ میں تم لوگ ؟ کیوں میرے پیچ کو رونق  بخشتے ہو۔

قندیل ایک ماں تھی جس نے بیٹا جننے کے ایک ماہ بعد اس معاشرے کی روایتوں کے مطابق خود کو غسل دیا تھا، کاش آج اس کے بھائی قتل کرنے کے بعد اپنی اپنی بےغیرتی کو بھی غسل دے سکتے۔

اس معاشرے کی نہ جانے کتنی لڑکیاں اپنے جسم کی کمائی سے پورے خاندان کا بوجھ اپنی چھاتیوں اور رانوں پر اٹھائے ماری ماری پھر رہی ہوتی ہیں، کاش اس ملک کے قوی الجثہ ٹوپی اتارنے کی بجائے کسی کو موت کے گھاٹ اتارنا حرام قرار دے دیں، کاش کوئی باپ یہ سوچے کہ میری بیٹی پھولوں کی سیج پر بیٹھے بغیر بھی معتبر کہلاسکتی ہے، کاش کوئی ماں کسی قندیل کی پرورش کرتے ہوئےیہ سوچے کہ اس کے منہ پر جو وہ طمانچے لگا رہی ہے، کہں معاشرے کے منہ پر تھپڑ تو نہیں!

قندیل کے معنی لالٹین اور مشعل کے ہیں وہ سچ کی روشنی جو اس سماج کا حقیقی روپ تمام آئینوں میں سمو گئی۔۔ جس قوم میں ایک فاحشہ عورت کو بھی عزت دی جائے، جینے کا حق دیا جائے، اپنی  رائے اور اختلاف کا حق دیا جائے وہ معاشرہ تہذیب یافتہ کہلاتا ہے۔ وحشت اور بربریت کی لکیروں کو مٹانا چاہیے۔ جون ایلیا کا ایک شعر پڑھ لیجئے، یہ بھی کسی قندیل کی روشنی کا ذکر ہے۔

سوگئی ہوگی وہ شفق اندام

سبز قندیل جل رہی ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments