کشمیر: لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!


\"husnain انسانی جسم کا سب سے نازک حصہ آنکھ ہے۔ کہیں چوٹ لگ جائے تب بھی سب سے پہلے اسی آنکھ میں آنسو آتے ہیں، کسی پیارے کو چوٹ لگے یا کسی پیارے سے چوٹ لگے تب بھی یہی آنکھ ہے جو روتی ہے۔ کوشش کریں کہ کوئی رونا نہ دیکھ سکے تو بھی یہ آنکھیں چھپانے نہیں دیتیں، سرخ ہو جاتی ہیں۔ ذرا سی مٹی یا ریت اڑ کر آنکھوں میں جو پڑ جائے تو بس پھر ادھر سے ادھر ٹاپتے پھریں، جب تک منہ نہیں دھوئیں گے، مٹی نہیں نکلے گی، سکون نہیں آئے گا۔ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے سامنے سے ایک سینٹی میٹر کا کیڑا آ کر گھس گیا تو ساری مشینری رک گئی، انسانی بھی اور انسان کی بنائی ہوئی بھی، پھر آنکھ سے کچھ بھی نکالتے ہوئے منہ بھی خواہ مخواہ کھل سا جاتا ہے۔ گاڑی میں سگریٹ پی رہیں ہوں گے، شیشہ نیچے کرنا بھول گئے تو ابھی آدھی سگریٹ نہیں پی ہو گی کہ آنکھوں میں دھواں چبھنا شروع ہو جائے گا، پانی نکلنا شروع ہو جائے گا، آنکھیں میچ کر آپ شیشہ کھولیں گے، سکھ کا سانس لیں گے اور سوچیں گے کہ یار دبئی والے ٹھیک ہی کرتے ہیں جو گاڑی میں سگریٹ نہیں پینے دیتے۔ صبح سویرے ہری مرچیں کاٹیں، آملیٹ بنایا، ہلکا سا کوئی مصالحہ اڑ کر آنکھوں میں گیا اسے مسلنا جو شروع کیا تو استاد، لگ پتے جائیں گے، ہاتھ دھونا تو یاد نہیں رہا تھا اب اچھلیے کہ ہری مرچ کی چبھن تو آنکھیں دھونے سے بھی کم نہیں ہو گی۔

بچوں کی آنکھیں تو اور بھی نازک ہوتی ہیں۔ ذرا کہیں کچھ ہوا نہیں کہ سب سے پہلے آنکھ سے پانی بہنا شروع ہو جائے گا۔ نزلہ ہو، زکام ہو، کوئی انفیکشن ہو، کسی قسم کی بیماری ہو، اکثر آپ دیکھتے ہیں کہ آنکھ اپنی نازکی سب سے پہلے دکھلاتی ہے۔ گندے ہاتھ آنکھوں کو لگ جائیں تو قسم قسم کی بیماریوں میں بچے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پھر بچوں کی آنکھیں تو جھوٹ بھی نہیں بول سکتیں، کچھ بھی کر لیں صاف پکڑے جاتے ہیں۔ اور اگر کسی دن ان آنکھوں میں چھرے گھس جائیں تو کیسا ہو؟

فرض کیجیے کوئی شخص گھر سے کچھ کام کرنے نکلے، ساتھ میں بچے بھی ہوں، ذرا آگے پہنچے، وہاں کچھ ہنگامہ دیکھے، اچانک فائرنگ \"kashmiri-boys\"شروع ہو، ایک چھروں کی بوچھاڑ آئے اور پورا خاندان دونوں آنکھوں میں چھرے لیے بے ہوش پڑا ہو۔ ہوش آنے پر تکلیف اس شدت کی ہے کہ برداشت نہیں کی جا سکتی۔ کہاں تو آنکھ میں مرچوں والے ہاتھ لگنے پڑ اچھل پڑتے ہیں، کہاں سالم چھرے گھسے ہوئے ہیں۔ آپریشن تک نہیں ہو سکتا۔ کتنے ہوں، کیسے ہوں، کس وقت ہوں؟ ایک آدمی تھوڑی ہے، جم غفیر ہے، شہر کا شہر آنکھوں میں چھرے سجائے گھوم رہا ہے، تحفہ ہے قابض حکومت کا، جیسے اس کے پنجے گڑے ہیں ویسے ہی چھرے بھی گاڑے گی۔ اس طرح کی بوچھاڑ ہے کہ جو چھت سے جھانکتا ہے وہ بھی اندھا ہوتا ہے، جو اک ذرا کھڑکی کھول لیتا ہے وہ بھی کام سے جاتا ہے، پوچھنے والا کوئی نہیں، کوئی پوچھے بھی کیسے، خود اپنے ہاتھوں سے کیس خراب کیا ہے، کس منہ سے پوچھے گا؟

ڈاکٹر چیر پھاڑ کے عادی ہوتے ہیں۔ دوران تربیت انہیں ہر طرح کا مریض دیکھنا پڑتا ہے، علاج کرنا پڑتا ہے، سرجری کرنا  پڑتی ہے، کسی قسم کا آپریشن ان کے اعصاب پر عموماً حاوی نہیں ہوتا۔ اور جو نازک مزاج ہوں وہ بھی آہستہ آہستہ عادی ہو ہی جاتے ہیں کہ مجبوری ہوتی ہے۔ پھر سرجن جو ہوتے ہیں وہ تو ہوتے ہی آپریشن کے ماہر ہیں، یعنی کام ہی یہی ہے، روز کتنے ہی مریض گرائے، جراحی کی، شفا ہوئی، دونوں چلتے بنے۔ اور جو سرجن ہی چیخ اٹھے کہ میں سو تک نہیں سکا ان دنوں میں، اور یہ بہت دل خراش اور تکلیف دہ کام تھا، تو سوچیے مریض کی اذیت کس مقام پر ہو گی؟ اور پھر سرجن کو خود بھی اپنی کامیابی کا یقین نہ ہو!

ایسے انسانیت سوز اور گھناونے مظالم کے خلاف بات کرتے وقت ہم تو زیادہ سے زیادہ احساس کر سکتے ہیں، ذہنی اذیت محسوس کر سکتے ہیں مگر سوچیے جن کی آنکھ آپریشن کے بعد کھلی ہو اور پھر بھی اندھیرا ہو، اور ساری زندگی اندھیر ہو جائے ان کے ساتھ کیا گزری ہو گی، وہاں تو کوئی وزیر اعلی بھی نہیں جو پانچ لاکھ کا چیک دے آئے، اور یہ پانچ لاکھ ان کی روشنی کی قیمت نہ ہو، کسی کی کوتاہیوں کا تاوان ہو۔

شکار کے اخلاقیات میں بھی یہ بات شامل ہے کہ چھروں کی بوچھاڑ کرنے والی بندوق کا استعمال نہ کیا جائے یا کم سے کم کیا جائے۔ نقصان \"kashmir\"اس کا یہ بتلایا جاتا ہے کہ جانور یا پرندہ بعد میں کھانے کے قابل بھی نہیں رہتا اور نہ سجانے کے، کھال اور گوشت دونوں چھرم چھرا ہو جاتے ہیں۔ غضب خدا کا، کشمیری جانوروں سے بھی بدتر ہیں وہاں کی انتظامیہ کے لیے؟ ابھی وسعت اللہ صاحب نے پورا انسائیکلوپیڈیا اپنے کالم میں کھول کر رکھ دیا، ایک ایک طریقے پر تحقیق کی، کیا ان وحشیوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ربڑ کی گولیوں یا پانی کے پریشر سے ہجوم پر قابو پا لیتا۔ آنسو گیس بھی ایک عرصے سے استعمال میں ہے، دنیا بھر کا آزمودہ نسخہ ہے، اس سب کے باوجود آنکھوں میں چھرے بھونک دینا، بربریت کی اس سے تلخ مثالیں بے شک آپ کو حالیہ تاریخ میں نظر آئیں گی لیکن بھارت ایسا ملک جو ساری دنیا میں اپنے سافٹ امیج کے لیے مارا مارا پھرتا ہو اسے یہ گھناونا اور قابل صد مذمت فعل ہرگز زیب نہیں دیتا۔

امریکہ نے ویت نامیوں کے ساتھ، چین نے تائیوان والوں کے ساتھ، اسرائیل نے اہل گولان کے ساتھ، عراق نے کردوں کے ساتھ، کرنے والوں نے بنگالیوں کے ساتھ اور بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ جو اندھیر مچائی، تاریخ اس سب کی گواہ ہے۔ عوام پر کیے جانے والا ظلم و ستم ہمیشہ دوگنے تگنے رد عمل کے ساتھ واپس آتا ہے جو اس معاملے میں بھی ہو گا، آپ بھی یہیں ہیں، ہم بھی ادھر ہی، زندگی شرط ہے، ضرور ہو گا! لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

یہ تحریر لکھنے کے بعد سوچا کہ اس ظلم و ستم اور اندھیرنگری کے خاتمے کا ایسا کامل یقین کیوں کر ہوا، جواب رات کے ختم ہونے اور صبح کے طلوع ہونے کی شکل میں نظر آیا۔

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments