بجھی ہوئی بلوچ قندیلیں


\"zulfi\"بلوچ بھی بعض اوقات زیادتی کرجاتے ہیں…اب یہی دیکھیے کچھ نوجوان یا شاید بزرگ بھی فرماتے ہیں پاکستان میں بلوچ وہ واحد قوم ہے جو عورت کی عزت کرتی ہے جبکہ اسی قسم کا دعوی اسلام و مغرب کے حوالے سے راسخ العقیدہ مسلمان بھی کرتے ہیں….

ان بلوچوں سے اگر پوچھا جائے جناب عزت کی کوئی مثال عنایت فرمائیے تو وہ بڑے مزے سے فرماتے ہیں….\”جنگوں میں اگر عورت درمیان میں آجائے تو جنگ ختم ہوجاتی ہے یعنی \”میڑھ\” کے ذریعے عورت مخالف فریق کے سامنے چادر اتارتی ہے اور مخالف فریق اسے دوبارہ چادر اوڑھا کر امن و چین کی بانسری بجاتا ہے\”…..بعض دوست سردار چاکر کی بہن بی بی بانڑی کی مثال پیش کرکے فرماتے ہیں کہ انہوں نے مردوں کے لشکر کی سربراہی کی….کچھ تو میر کمبر کی والدہ یا کلاسیک شاعری سے دیگر اساطیری خواتین کے قصے لے آتے ہیں…..

خوش فہم افراد کے مطابق بلوچ پیدائشی سیکولر، آزاد خیال اور عورت دوست ہیں کیونکہ اعلی بلوچ قومی (قبائلی) روایات اسے پنگھوڑے سے مل جاتے ہیں….

اب آئیے ذرا ان خوش فہمیوں کو زمینی حقائق کی بھٹی سے گزار کر دیکھیں…

بلوچ معاشرہ ایک قبائلی جاگیردارانہ معاشرہ ہے اور اس قسم کے دیگر سماجوں کی طرح بلوچ سماج میں بھی قبیلے کی سربراہی سے لے کر گھرانے تک مرد ناقابل تقسیم و انتقال اختیارات رکھتا ہے….قبائلی جنگوں یا تصفیوں میں مرد کا کردار اور فیصلہ حتمی ہوتا ہے….جیسے سردار چاکر خان اور سردار گْوھرام خان کی کلاسیک جنگ ہو یا ماضی قریب میں نواب اکبر بگٹی کی بگٹی قبیلے کی شاخ کلپر کے ایک دھڑے سے یا دورِ حاضر میں رئیسانی رند لڑائی….یہ تمام جنگیں مردوں نے اپنی انا یا معاشی مفادات کی خاطر شروع کیں ان جنگوں میں عورت کی ذمہ داری جنگجو مرد جننا اور ان کو لوری کی شکل میں جنگ کیلئے تیار کرنا تھا….بلوچ شاعری کے زخیرے میں شاذ ہی کوئی ایسی لوری ملے جس میں کسی \”ننھی پری\” کی تعریف و توصیف کی گئی ہو…..

بلوچ سماج میں چونکہ مرد کی بالادستی اور حاکمیت کے بغیر سماجی نظم و نسق کے بگڑنے کا خدشہ ہے اس لیے ثقافت کے نام پر ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ عورت کو دبا کر رکھا جائے…..وراثت میں عورت کوئی حق نہیں رکھتی کیونکہ بلوچ زمین کو باپ دادا کی میراث بتاتا ہے…زرعی معاشروں میں زمین ماں جیسی ہوتی ہے کیونکہ زمین ماں کی طرح تخلیقی قوت کی حامل تصور کی جاتی ہے لیکن بلوچ سماج پر زراعت سے زیادہ گلہ بان ثقافت کا اثر ہے اسلیے بلوچ کے ہاں دھرتی ماں کا تصور نہیں پایا جاتا البتہ آج کل اردو ھندی زبانوں کے اثرات کی وجہ سے \”ماتیں وطن\” یعنی ماں دھرتی کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے…..ایک بار نواب اکبر بگٹی نے \”ماتیں وطن\” کی اصطلاح پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ وطن باپ دادا سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ماتیں وطن کی اصطلاح استعمال نہ کی جائے اس ضمن میں انہوں نے کلاسیک بلوچی شاعری کے اس معروف شعر کو بھی دہرایا کہ \”کوھنگ ءِ اے کوہ ءُ کلات کسی پت ءِ میراث نہ اَنت….ما گوں سگاراں گپتگ آں\” یعنی کوھنگ کے یہ پہاڑ اور قلعے کسی کے باپ کی میراث نہیں ہم نے انہیں بزور شمشیر حاصل کیا ہے……

اسی طرح ایک نظر بلوچی ضرب المثل اور محاوروں پر بھی دوڑانی چاہیے جہاں عورت کو حقیر سمجھنے کا تصور مکمل طور پر پایا جاتا ہے…..

مثلاً : \”بھائیوں سے محروم عورت اس قلعے کی مانند ہے جس کا کوئی والی نہیں\”….

\”بیوی کو دوسری عورت لاکر سیدھا کرنا چاہیے\”…

\”کنواری کا دلہن کی طرح سجنا عیب ہے\”….

\”خوش مزاج بیوی دوسرے مردوں کی یار ہوتی ہے\”….

\”بیوی کو اگر عزت دی جائے تو وہ سر چڑھ جاتی ہے\”

\”عورت کو مال و زر سے نہیں راتوں کی بے خوابی سے تسخیر کیا جانا چاہیے\”….

منحوس بکری بکرا پیدا کرتی ہے جبکہ منحوس عورت , عورت\”…

یا اسی طرح عورت کو معاشی سرگرمی سے دور رکھنے کیلئے ایک مثل ایجاد کی گئی \”اگر باپ میں اہلیت ہوتی تو ماں بکریاں نہ چراتی\”….

اس قسم کی سینکڑوں مثالیں بلوچ سماج میں موجود ہیں جبکہ عورت مخالف اشعار اس کے علاوہ ہیں….

جنگوں میں مخالف فریق کو \”بے توقیر\” کرنے کیلئے بھی عورت کو استعمال کیا جاتا رہا ہے….اس حوالے سے بلوچ کلاسیک شاعری کے مشہور کردار بی برگ رند کی مثال دی جاسکتی ہے….رند لاشار جنگ کے دوران بی برگ کی ایک شادی شدہ لاشاری خاتون سے دوستی ہوجاتی ہے…بی برگ رات اس خاتون کے خیمے میں گزارنے کے بعد بجائے چوری چھپے نکل جانے کے صبح کا انتظار کرتا ہے تاکہ اس خاتون کا شوہر اور دیگر لاشاری مرد اس کی \”فتح یابی\” کا تماشہ کرکے تذلیل کا احساس کریں….وہ اپنے اس قبیح منصوبے کی اطلاع چاکر خان کو دے کر آتا ہے تانکہ چاکر صبح اس کو لاشاری مردوں کے غیض و غضب سے بچا سکے….ہوتا بھی یہی ہے، صبح ایک جانب مغلوب الغضب لاشاری مرد ہوتے ہیں اور دوسری جانب طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے رند لشکر جبکہ درمیان میں منہ چھپاتی عورت اور مونچھوں کو تاؤ دیتا بی برگ….

پدرانہ معاشرے میں عورت کی شرف و عزت کا دعوی کرنا محض خود فریبی ہے….عورت کی عزت کے حوالے سے جو دلیل سب سے زیادہ دی جاتی ہے وہ میڑھ کی روایت ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے….

اب ذرا میڑھ کا جائزہ لیتے ہیں…قبائل کا سربراہ چونکہ مرد ہوتا ہے اس لیے اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عورت جنگ شروع یا ختم کرنے کا اعلان کرے البتہ جنگ بندی کیلئے میڑھ کے نام پر عورت کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے جو بذاتِ خود قابلِ نفرت ہے چہ جائیکہ اس پر فخر کیا جائے….

جنگوں میں اگر کوئی ایک فریق کمزور پڑجائے تو وہ غالب فریق کے پاس صلح کا پیغام بھیجتا ہے…یہ پیغام عورتوں کے ذریعے میڑھ کے نام پر بھیجے جاتے ہیں….مغلوب فریق کی عورتیں غالب مرد کے قدموں میں چادر ڈال کر صلح کی درخواست کرتی ہیں…یہ دراصل مغلوب فریق کی جانب سے اپنی عزت سے دستبرداری کی علامت ہے اب چونکہ عزت کا تصور عورت کی چادر سے وابستہ ہے اسلیے سرخ آنکھوں پر اترانے والا مرد خواتین کے ذریعے جنگ بندی کی درخواست کرتا ہے…..

غالب فریق کیلئے یہ قطعاً لازمی نہیں ہے کہ وہ اس \”غیرت کی گٹھڑی\” کو قبول کرے وہ چاہے تو گٹھڑی کو لات بھی مار سکتا ہے….بلوچ کوڈ آف آنر کے سب سے بڑے پاس دار نواب اکبر خان بگٹی نے کلپر خواتین کی میڑھ کو مسترد کرکے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا…شاید ہی کوئی \”غیرت مند\” بلوچ نواب بگٹی کی بلوچیت پر شک کرے….کم از کم مجھے \”شہیدِاعظم\” کی بلوچیت پر کوئی شک نہیں….

ایسے میں عورت کے درمیان میں آنے سے جنگیں رک جاتی ہیں کا دعوی محض سراب ہی دکھتا ہے…بلوچ عورت کی غلامی کے مظاہر صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلوچستان کے تقریباً تمام شہروں کے بازاروں میں عورت نظر نہیں آتی ایسا لگتا ہے جیسے شہر کے مرد آسمان سے ٹپکے ہیں یا زمین سےاگے ہیں…باعث حیرت ہے اچھے خاصے پڑھے لکھے بلوچ بھی اس مظہر کو قابلِ فخر سمجھتے ہیں…..طالبعلم لیڈر کریمہ بلوچ جب تک بلوچستان میں رہی نقاب پہن کر عوامی اجتماعات میں شرکت کرتی رہی….عذر لنگ تراشا گیا نقاب سیکیورٹی کیلئے ہے گویا پاکستانی اداروں کو نقاب سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ٹھیک یہی دلیل فرزانہ مجید کی منہ چھپائی پر بھی دی گئی….دونوں خواتین چونکہ اپنے سماج کی فکری سطح سے واقف ہیں اسی لیے انہوں نے بھی ان دلائل کا کبھی ابطال نہ کیا….

فخر و غرور کی ایک جھلک ہمیں سینما میں نظر آتی ہے، 70 کی دہائی میں انور اقبال نے \”ھمل ماہ گنج\” کے نام سے ایک رومانی فیچر فلم بنائی جسے بلوچستان کے دیہات نشین بلوچ ایک طرف کراچی کے شہری بلوچوں نے بھی \”غیرت\” کا مسئلہ بنادیا یہاں تک ھمل ماہ گنج مخالف تحریک میں بلوچی زبان کے قد آور اور \”انقلابی\” شاعر جی.آر ملّا بھی پیش پیش رہے… \”ھمل ماہ گنج نہیں چلے گا , چلنے پر سینما جلے گا\” کراچی کے تقریباً تمام سینما گھروں پر یہ چاکنگ کردی گئی…. وجہ صرف یہ تھی کہ فلم میں ایک بلوچ عورت نے ماہ گنج کا کردار ادا کیا ہے…..

وہ دن اور آج کا دن بلوچی زبان میں سینما اسکوپ فلم بنانے کی جرات کسی نے نہیں کی تاہم عورت جیسی آلائش سے پاک ویڈیو فلمیں بنائی جا رہی ہیں…جہاں عورت کا کردار انتہائی ضروری ہو وہاں ہیجڑوں کو زنانہ لباس میں پیش کردیا جاتا ہے جبکہ ایران کے زیر انتظام بلوچستان میں بننے والی فلموں میں فارسی خواتین کو بلوچی لباس پہنا کر یہ ضرورت پوری کی جاتی ہے….

حال ہی میں ایرانی ٹی وی پر ایک بلوچی ڈرامہ سیریل \”شمبل شاھی\” پیش کی گئی جس میں بلوچ خواتین فنکاروں نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے , اس ڈرامے پر \”غیرت مند\” معاشرے کی جانب سے جو ردعمل آیا , الامان و الحفیظ….

اس وقت کروڑوں بلوچوں کا نمائندہ ٹی وی چینل صرف \”وش\” ہے جس کی خواتین اینکروں کے حوالے سے سماج میں وہ قصے پھیلائے گئے ہیں کہ سن کر کان سرخ ہوجاتے ہیں…..

سخت اور جامد روایات و اقدار کی اسیر قوم کی بیٹی، ڈیرہ غازی خان کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی قندیل بلوچ اگر سرخ لکیر پھلانگ کر مردانہ تفاخر کے تصورات پر سنگ باری کرے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا، جو ہوا….

قندیل بلوچ کے قتل کے حوالے سے جو کہانی سامنے آرہی ہے اس میں کافی جھول ہے مثلاً میرے لیے یہ ماننا تاحال مشکل ہے کہ یہ قتل ایک بھائی کا ذاتی \”کارنامہ\” ہے….ان کے قتل سے قبل بلوچ \”غیرت مندوں\” نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ وہ \”بلوچ\” نہیں بلکہ بلوچ مخالف سازش کا ایک بدصورت کردار ہیں….ان کے نام کے حوالے سے عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی گئی گویا بلوچ شناخت پر بھی چند \”غیرت مندوں\” کی اجارہ داری ہے….علاوہ ازیں ریٹنگ کے چکر میں پاکستانی میڈیا نے بھی ان کو ایک چڑیل کے روپ میں پیش کیا، مفتی قوی خان کی جگ ہنسائی کے باعث مذہبی تنظیموں کو بھی ان سے شکایت تھی… اخباری اطلاعات کے مطابق قندیل بلوچ نے حکام کو خطرے سے آگاہ بھی کیا تھا، یقیناً یہ خطرہ اس بھائی سے تو نہ ہوگا جو آج نہ صرف بڑی آسانی سے گرفتار ہوا بلکہ طوطے کی طرح ایک ایسی کہانی بھی رٹ رہا ہے جس کا لیکھک وہ نہیں لگتا… عنقریب وہ فاتحانہ انداز میں دوبارہ معاشرے میں آزاد گھومتا دکھائی دے گا….

قندیل بلوچ، ان لاکھوں عورتوں کی طرح ایک ایسی عورت تھی جو خواب دیکھتی ہیں، رنگین سپنے بنتی ہیں، اپنے وجود کا اثبات چاہتی ہیں….موجودہ سماجی ڈھانچے میں ان خوابوں کی تعبیر یہی ہے , جو ہوا….اس میں کوئی شک نہیں وہ بہادر تھی , انہوں نے مردانہ سماج کو تگنی کا ناچ نچایا , پیروں کے انگھوٹے پر رکھا مگر وہ اس غلط فہمی میں رہی کہ اس کے پاس اڑنے کو آسمان ہے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments