قندیل بلوچ۔ اِک قتل اور سہی


بہت وقت سے ہمارے ہاں \”اِک قتل اور سہی\” نامی فلم کھڑکی توڑ رش لے رہی ہے۔ کبھی غیرت نامی پاپ کارن تو کبھی ذاتی رنجش نامی \"Afshanمرونڈا اور کچھ نہ ہو تو \”کافر کافر فلاں کافر\” سی بارہ مصالحہ چاٹ۔ ۔ ۔ فُل ٹائم مستی اور خوب ٹی۔ آر۔ پی دھمال ۔ اب کی بار اس میں جو کردار سامنے آیا ہے وہ قندیل بلوچ تھیں۔

مجھے اس مضمون میں اگر، مگر، لیکن، چونکہ چناچہ نہیں کرنی ۔ ایک عزیز نے پرسوں ہی گلہ کیا کہ میں ردِعمل میں لکھنے لگی ہوں، کچھ تازہ اور منفرد نہیں۔ خود سے عہد کیا کہ اب شکایت نہ ہوگی۔ قندیل کے معاملے پر تین روز سے ایسا تماشہ دیکھ رہی ہوں کہ خاموش رہنا محال ہو چلا ہے ۔ وجہ اس وقت پینتیس سیکنڈز کی ایک وڈیو ہے ۔ اس میں دو نیوز چینلز کے کیمرہ مین اور کچھ فوٹوگرافرز نے مقتولہ کی دانتوں تلے دبی جامنی رنگ کی زبان، سُرخ چہرے اور پھولی ہوئی لاش پر بےتابی کا اظہار یوں کیا \”ارے یار ہاتھ پیچھے کرو۔۔ کلوز اپ لو۔۔۔ ابے کیا کررہا ہے، ہاتھ پیچھے کر چہرے سے۔۔۔ یار ہاتھ تو سائیڈ پر  کرلو۔۔۔ کیا طریقہ ہےیار یہ۔۔۔۔ نکلو یہاں سے۔ \” جبکہ ایک آواز مقامی لہجے میں آئی \”گھٹیا زنانی۔ ۔ ۔ ۔ \”

یہ لفظ دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ سوال اٹھا رہا ہے کہ آخر کسی مرد کو کیسے خبر ہوئی کہ فوزیہ عظیم اب قندیل بن چکی تھی ؟ اس کے کاغذات میں قندیل کے گھٹیا پن کا پیمانہ کیسے لبریز ہوگیا ۔ ایسے متقی و پرہیزگار لوگ اگر حقارت کا اظہار کر رہے ہیں تو میں سوال اٹھانے سے قاصر ہوں، دِل نہیں مانتا کہ انہوں نے قندیل کی کوئی فوٹو، وڈیو یا حال ہی میں جاری ایک گانا دیکھا ہوگا۔ ممکن ہی نہیں جناب۔ یہ باطل خیال مجھے آنا بھی نہیں چاہیے تھا۔

انسٹاگرام پر ابھی قندیل کا اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی ہے کہ دیکھوں کتنے فالؤرز تھے اور اس کی آخری تصویر اور گانے کو کتنے ہزار لائکس مِلے۔ لیکن افسوس کہ وہ اکاؤنٹ مکمل خالی ہے۔ نہ کوئی تصویر، نا ہی وڈیو، فالؤرز اور دیگر لوازمات تک صفر ہیں۔ اور عجیب بات ہے کہ کسی نے ابھی تک یہ بات کیوں غور نہیں کی کہ مقتولہ کے سیل فون سے اس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ تلف یا خالی کرنے کا ثواب کِس نے کما لیا ہے۔ جبکہ اس کے فیک اکاؤنٹ پر لاکھوں لوگوں کا ہجوم ہے جو پیج ایڈمن کو اللہ کا خوف دِلوا کر مرحومہ کے عذاب میں کمی ہونے کی واحد راہ سب کچھ تلف کر دینے میں بتلا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کسی نے وہ تصاویر اور وڈیو کلپس اپنے ہاں کوئی خفیہ فولڈر میں پاس ورڈ لگا کر محفوظ نہیں کی ہوں گی۔

ہم نے کبھی سوچا ہے کہ 2013ء میں ماڈلنگ کی دنیا میں آنے والی لڑکی نے فوزیہ عظیم سے قندیل بلوچ تک کا سفر کیسے طے کیا ہوگا ؟ ڈھائی سال میں وہ ہر ٹی۔ وی چینل کے حواس پر کیوں سوار ہو چکی تھی؟ کوئی اسے فاحشہ کہہ کر اپنی پرہیزگاری کا اُجلا دامن دِکھا رہا ہے تو کوئی طوائف پکارتے ہوئے اپنا باطن چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سمجھ مجھے دونوں صورتوں میں نہیں آتی کہ جِس عورت کو \”دھندہ کرنے والی\” کہا جاتا ہے آخر اُس کے گاہک کون ہوتے ہوں گے۔ یہی مرد یا کوئی ہوائی مخلوق؟ مقتولہ کےطرزِ حیات سےاپنی پاکبازی و متقی پن کے پہلو نکالنے والے یہ سب کیسے جانتے ہیں کہ فلاں لباس، فلاں رنگ، یہ وڈیو اوروہ گانا۔۔۔ وغیرہ؟ کیا انہیں الہام ہو گیا؟

گِدھ بنے قندیل کی زندگی کا ہر پہلو بھنبھوڑ ڈالنے والا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے ذومعنی غلاظتیں بکتے لوگ آج بہت غم میں ہیں کہ قندیل مر گئی۔ لیکن ظاہر ہے اب کوئی نئی قندیل ابھر کر سوشل میڈیا پر آئے گی تو ہی ان کی شہوت کی تسکین ہو پائے گی نا۔ چلو مردوں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ خواتین کو کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں فیس بُک اور وٹس ایپ گروپس میں قندیل کے مرنے کا جشن منا رہی ہیں؟ کیا قندیل ان کی ازدواجی زندگیوں پر ایسی ہی حاوی تھی یا پھر ان عورتوں کو بھی اپنے ماضی و حال کے پہلو چھپانے کے لیے کسی \”فاحشہ\” کو زیرِ بحث لانے میں ہی عافیت دکھائی دیتی ہے؟

مقتول کے ماضی پر سیر حاصل تجزیے دراصل قاتل اور \”بےغیرتی\” کے نام پر قتل جیسی درندگی کو شیلڈ فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ کچھ صاحبانِ ملت یہاں تک فرما گئے کہ \”وہ اپنے قتل کی خود ذمہ دار ہے۔ اس نے اپنے گھرانے کے پاس کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ \” یہ تو کمال کی منطق ہوئی۔ آئندہ ہر مقتولہ، تیزاب گردی کا شکار اور جھلسا کر مار دی جانے والی کے لیے یہی جملے استعمال ہونے چاہییں۔

اصل لعنتی کردار تو وہ ہیں جو غیرت کا پہلو تلاش کرتے بالکل ہلکان ہو رہے ہیں۔ نشہ آور گولیاں کھلا کر تکیہ رکھ کر سوئی ہوئی ماں جائی کی زندگی چھین لی۔ قتل کے متضاد محرکات لکھ کر ایف۔ آئی۔ آر کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ جسے کہتے ہیں ماٹھا کم پا دِتا۔ ایک جانب غیرت کا ذکر ہے تو دوسری طرف پیسوں کے لین دین کا جھگڑا لکھا گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ اِس پنجاب پولیس کی کرشمہ سازی ہے کہ مفرور\”غیرت کے پتلے\” کو سیلیبریٹی بنوانے کی بھرپور کوشش کی۔ دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ ایک مفرور قاتل کو گرفتار کر کے یوں پریس کانفرنس کروائی جائے۔ قاتل بھی وہ شخص جو دھڑلے سے سینہ پھلائے کہتا ہے کہ اس کو بالکل کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں۔ پھر دعویٰ ہے کہ بہن کی وڈیو دیکھ کر غیرت آگئی اور مفتی صاحب کے ساتھ اسکینڈل پر خون جوش مار گیا۔ (ظاہر ہے جی ۔ مسلمان بچہ ہے۔ مفتی صاحب کا باطن اس بری طرح سے عیاں کرنے والی بہن کو جینے کا حق ہی نہیں)۔ اگلے ہی سانس میں اس بےغیرت ماں جائے کو خیال آگیا کہ بہن دراصل بلوچ قوم کو بدنام کررہی تھی لہذا غصہ آیا۔ آپ صرف اس معاملے میں بدلتے بیانات مت دیکھیے۔ عیاری کی انتہا جانچیے۔۔۔ بےحیائی، غیرت، مفتی، بلوچ ۔۔۔ تمام عناصر ملا کر بن گیا غیرت مند بھائی۔ وہ بھائی جِس کو اسی بہن نے اپنی کمائی سے موبائل مرمت کی ایک دکان سے \”باعزت \” روزگار کا بندوبست کر کے دے رکھا تھا۔ وہ بھائی جو اپنے والدین کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اُسی \”گھٹیا زنانی\” نے کرائے پر مکان لے کر دیا تھا۔ بہن کا جہیز تک اسی بندی کے ذمے سے نکالا گیا تھا۔ یہ بھائی پانی کو مم مم اور روٹی کو چوچی کہتا تھا جب ایک کم تعلیم یافتہ بہن پسماندہ علاقے سے بڑے شہر میں کمانے نکل کھڑی ہوئی؟ یہ تو اتنا معصوم تھا اسے اتنے سال خبر ہی نہ ہوئی کہ سب خرچے کہاں سے پورے ہو رہے ہیں ؟

تفتیش تو ہونی چاہیے۔ خاص کر مفتی صاحب کی اس نخوت بھری تنبیہہ کے بعد کہ \”جو بھی آئیندہ مفتیان کو بدنام کرنے کی \”کوشش\” کرے وہ قندیل بلوچ کا انجام یاد رکھے۔\” دو روز سے وہ شخص، کہ جس کی ٹوپی اتر کر قندیل کے سر چلی گئی اور جس کی ویسٹ کوٹ بکھرے بالوں کےساتھ دیگر کلپس میں غائب نظر آئی، ہر ٹی۔ وی شو میں نک سک تیار ہوکر فراخ دِلی سے کہہ رہا ہے \”میں نے معاف کیا۔ قندیل نے میرے پیروکاروں کا دِل دکھایا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن۔۔۔  \”جی ہاں لیکن۔۔۔ لیکن انہوں نے معاف کردیا۔

مجھ کو انسان سمجھ خود کو فرشتہ نہ بنا

اور جِس لمحے قندیل کے باپ نے یہ کہا \” او میرا پُتر سی۔ دھی نئیں۔۔۔\” سمجھ سکتے ہیں ان الفاظ کا مفہوم؟ چھ بیٹوں کے باپ کا یہ کُرلاتا لہجہ اور اس کا سسکتا مفہوم ایک تھپڑ ہے اس معاشرے کی دو رُخی اور اخلاقیات کے جعلی پیمانوں پر۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں

کتھوں قبراں اچوں بول

کتاب عشق دا کوئی

نواں ورقا پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی

تینوں لکھ لکھ مارے بین

ہُن لکھاں دھیاں روندیاں

ہم پاکستانیوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ملالہ کو سالگرہ کے روز دعا دینے پر بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں اور قندیل کے لیے دعائے مغفرت پر بھی ان کا ایمان خطرے میں آجاتا ہے۔ ایک طبقہ مسلسل یہ تلقین جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کیلیے RIP لکھنا بھی مناسب نہیں۔ ٹھیک ہوگیا ۔ اب شرمین عبید چنائے قندیل پر فلم بنائے تو بھی یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوگی۔ کیونکہ بین الاقوامی میڈیا نے چاہے قندیل قتل پر ردِعمل دیا ہے لیکن پھر بھی بقول ہماری پاکباز غیرت مند برگیڈ کے ہزاروں قندیلیں روز بجھتی ہیں۔ ان پر تو کبھی فلم نہیں بناتی شرمین۔

تو صاحبان و قدردانِ غیرت و حمیت میری دعا صرف یہ ہے کہ \”گھٹیا زنانی\” کا انسٹا گرام جِس طرح خالی کیا گیا ہے اسی طرح آپ کے خالی دماغ کسی نئی قندیل کو جلد پا لیں۔ تاکہ زندگی میں رونق شونق لگی رہے۔ باقی اللہ کو پردہ پسند ہے تو آپ بھی چھپ کر دیکھیے تاکہ ایک نئی فوزیہ اپنے والد کی دھی رانی نہیں، پُتر بن کر ڈشکرے بھائیوں کے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پوری کر سکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments