مٹھائی میں انتہا پسندی کی آلودگی اور غیرت کا لہو


\"wajahat\"کالم لکھنا بھی ایک طرفہ سرگرمی ہے۔ شمیم حنفی روایت کرتے ہیں کہ فراق گورکھپوری ایک لمبی گفتگو کے بعد سگریٹ کا کش لے کر فرماتے تھے \”بھائی دماغ سانس لیتا ہے\”۔ فراق گورکھپوری صاحبِ دماغ تھے۔ خوش قسمتی سے کالم نویسی کے لئے یہ شرط لازم نہیں۔ دماغ ہونا ایک اردو محاورہ ہے۔ کالم نویس کے لئے بامحاورہ زبان لکھنا کافی ہے، طنز لکھتے ہوئے وار اوچھا پڑے تو طنز کی ممکنہ تشریح کے دوسرے پہلو کی آڑ لی جاتی ہے۔ کالم لکھتے ہوئے کوئی کنایہ، کوئی پیرایہ محض اتفاق سے درست نکل آئے تو کالم نویس خود کو داد دے لیتا ہے۔ ایم ڈی تاثیر صاحب ایسے موقع پر اپنے ہی زانو پر ہاتھ مار کر کہتے تھے \”میں بھی کیا قیامت ہوں!\”۔ درویش نے جمعہ کے روز حسب معمول کاغذ سیاہ کیا، درویش نے پروف پڑھا، آنکھ چوک گئی۔ غلطی روزنامہ جنگ کے پڑھنے والوں تک پہنچ گئی، جو بھی ہوا، ثریا تک تو پہنچی۔ خیریت یہ گزری کہ ہفتے کی صبح کالم شائع ہوا تو کسی نے گرفت نہیں کی کہ \”انصاف\” کو \”فریاد\” باندھ دیا گیا ہے کیونکہ ترکی میں مخلوق نے فریاد کی بجائے انصاف پر کمر باندھ لی تھی۔ ترکی سے ایسی اچھی خبریں آرہی تھیں جو برٹولٹ بریخت اپنے ڈرامے میں لکھ دیتے تو میلو ڈرامائی کی تہمت لگتی۔ ٹینک ایک دیو ہیکل دھاتی مشین ہوتی ہے جو آتشیں گولے پھینکتی ہے۔ اس میں ربڑ کے پہیوں کی بجائے فولاد کا کیٹر پلر استعمال کیا جاتا ہے۔ شہری آبادیوں سے گزرتی سڑکوں پر فوجی ٹینک نمودار ہوتا ہے تو خوفناک گڑگراہٹ سنائی دیتی ہے۔ ٹینک میں بیٹھا سپاہی نظر نہیں آتا۔ وحشت اور تباہی کا پیغام دینے والی نال ہوا میں اٹھی ہوتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانوی شاعر نے توپ کی نال کے لئے ایک بھلی سی تشبیہ دی تھی۔ استاذی شائستہ سونو نے تخلیق اور تباہی کا تلازمہ بھی اپنے مخصوص عالمانہ انداز میں سمجھایا تھا۔ افسوس کہ انگریزی ادب کی تشبیہات اردو اخبار میں لکھنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ ترکی کے لوگوں کو سلام ہے! اپنے ملک کا جھنڈا اٹھائے خالی ہاتھوں کے ساتھ نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ اپنی قیادت کی لاج رکھی۔ اپنے ملک کا دفاع کیا۔ درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ترکی کی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہوگیا۔ خدا نہ کرے کہ کسی بھی ملک میں عورتوں اور \"Salvador-Allende-coup\"مردوں کا خون بہے۔ زندگی کا حسن لہو بہنے میں نہیں، سانس لینے میں ہے۔ شہروں کا حسن بندوق سے برستی آگ میں نہیں، دلوں کی حرارت میں ہے۔ درویش نے چپاتی بٹنے کا محاورہ لکھا تھا۔ ہفتے کی صبح کالم چھپا تو ترکی میں مٹھائی بٹ رہی تھی اور پاکستان میں قندیل بلوچ قتل کر دی گئی تھیں۔ مجید امجد نے لکھا تھا، یہ میرا دامن صد چاک ، یہ ردائے بہار….

برادرم حامد میر تاریخ پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھٹو صاحب کی کتاب سے برمحل اقتباس دے کر پاکستان اور ترکی کا مختلف سیاسی تناظر بیان کیا ہے۔ بھٹو صاحب 1978ءمیں اپنی کتاب لکھ رہے تھے۔ چار عشرے گزر گئے، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا، اور ہماری آنکھ کا پانی تو ملتان کے نواح میں مظفر گڑھ تک پہنچ گیا ہے۔ ترکی نے اس دوران نئی سیاسی منزلیں سر کیں۔ ہم پاکستان کے رہنے والے بھی بساط بھر کوشش کرتے رہے۔ مطمئن تو خیر کیا ہوں گے، مگر نادم نہیں…. اگر فوجی بغاوت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا سوال ہے تو چلی میں سلواڈور آلاندے بندوق اٹھا کر صدارتی محل کے دروازے پر مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوا۔ جمہوری مزاحمت میں آلاندے کا نام بہت اوپر آتا ہے۔ اگر اخلاقی قامت کی بنیاد پر رہنمائی کا سوال ہے تو 1991 میں گورباچوف کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تھی۔ تاریخ انسانی نے سوویت یونین کی سرخ فوج سے زیادہ مستبد عسکری قوت \"gorbachev\"شاید ہی دیکھی ہو۔ روس کے شہریوں نے بھی پارلیمنٹ میں جانیں دی تھیں۔ گورباچوف نیند سے محروم متورم آنکھوں کے ساتھ ماسکو ایئر پورٹ پر اترا تھا۔ ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہونے کا سوال ہے تو مئی 1989 میں تائنامین اسکوائر میں ٹینکوں کی قطار کے سامنے کھڑا ایک نہتا نوجوان بیسویں صدی میں جمہوری مزاحمت کا نشان ہے۔ طیب اردوان تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ترکی کی جمہوری جدوجہد میں ایک طرف عدنان مندریس کا نام ہو گا اور دوسرے حاشیہ پر طیب اردوان۔ سوال مگر یہ ہے کہ طیب اردوان نیلسن منڈیلا کا راستہ اختیار کریں گے جو سچائی بیان کر کے معاف کرنے کا راستہ ہے، جس سے یکجہتی، رواداری اور ترقی کا راستہ کھلتا ہے یا وہ حسینہ واجد کے راستے پر چلنا پسند کریں گے جہاں جمہوری اختیار کو سیاسی انتقام کے لئے جواز بنایا جاتا ہے۔ اختلاف کو جمہوریت کے نام پر کچلا جاتا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی مساوات ہے، اکثریت کا استبداد نہیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ آزادی صحافت کے بغیر جمہوریت کا استحکام ممکن نہیں۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ جمہوری قیادت معاشی ترقی کے راستے عوام کے دلوں تک پہنچتی ہیں۔ چوتھا سبق یہ ہے کہ سیکولر اقدار کی بنیاد سب شہریوں کے لئے عقیدے کی آزادی ہے۔ سیکولرازم شہریوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کا نام نہیں۔ سیکولر ازم ایک سیاسی بندوبست ہے، مذہبی فریق نہیں۔ ترکی کی فوج میں روایت رہی ہے کہ سیکولر ازم کے نام پر مذہب دشمنی میں پناہ لی جاتی ہے۔ جیسے دنیا کے کچھ ملکوں میں فوج ملک سے محبت کے نام پر مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیتی ہے۔ سیکولرازم مذہب دشمنی ہے اور نہ جمہوریت مذہبی عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ۔ سیکولرازم تمام عقائد کی یکساں آزادی کا تحفظ ہے تاکہ ہر طرح کے پھول اپنی خوشبو بکھیر سکیں۔

\"tiananmen-articleLarge\"

ہمارے ایک محترم سیاسی رہنما فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آمریت سے نجات دلائی جائے تو عوام مٹھائی بانٹیں گے۔ محترم رہنما ترکی کے واقعات سے صحیح نتیجہ اخذ نہیں کر رہے۔ حکومت آئین کے مطابق منتخب ہو تو اس کے آمرانہ رویوں پر احتساب کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت میں شہریوں کی رائے کو ووٹوں کی گنتی سے طے کیا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی قوتیں اپنی رائے بیان کرتی ہیں۔ فیصلے کا اختیار عوام کو ہوتا ہے۔ جمہوریت میں عوام سے ماورا کوئی ایمپائر نہیں ہوتا۔ ترکی میں عوام نے ایمپائر کی انگلی کو مسترد کر دیا ہے۔ جمہوری ثقافت ان بنیادی اصولوں کا نام ہے جو انسانوں کے مل جل کر رہنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ گھر کی چار دیواری میں عورت پر مرد کی بالا دستی مانگی جائے اور ملک میں جمہوری بند و بست کا جھنڈا اٹھایا جائے۔ ملک کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی جائے اور عالمی برادری سے انصاف مانگا جائے۔ جمہوریت کا چشمہ گھر کی دہلیز سے نکلے گا، پارلیمنٹ تک پہنچے گا اور شہریوں کے ساتھ شفاف مساوی سلوک سے اخلاقی قوت پا کر دنیا کے نقشے پر انصاف کا مطالبہ کرے گا۔ جمہوریت جائز اور ناجائز میں لکیر کھینچنے کا سوال ہے، روشنی کو تاریکی سے الگ کرنے کا \"edit\"سوال ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ قندیل بلوچ کو قانون کا تحفظ دیا جائے۔ ظفر لنڈ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ اخبار کے صفحے پر اشتعال انگیزی روکی جائے، ٹیلی ویژن کی سکرین پر یہ اعلان کرنا بند کیا جائے کہ اگر جرم ہورہا ہو تو کوئی بھی اسے روک سکتا ہے۔ یہ ریاست کو ملیامیٹ کرنے کا اعلان ہے۔ جرم کا تعین قانون کی کتاب میں کیا جاتا ہے تاکہ قانون کے احتساب اور شہریوں کی آزادی میں توازن قائم کیا جا سکے۔ جرم کی تعریف کسی خبطی کی فکری منافقت سے متعین نہیں کی جا سکتی۔ اگر پاکستان کے لوگ عمران خان صاحب کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچاتے ہیں تو یہ درویش لاہور کی سڑکوں پر مٹھائی بانٹنے نکلے گا کیوںکہ اس مٹھائی میں جمہور کی کامیابی کی مٹھاس ہوگی، ہمارے اداروں کے وقار کی مہک ہوگی۔ اس میں نا انصافی کی آلودگی نہیں ہوگی، اس مٹھائی پر قندیل بلوچ کے لہو کے دھبے نہیں ہوں گے۔

(یہ کالم روز نامہ جنگ میں 19 جولائی 2016 ءکو شائع ہوا) https://jang.com.pk/print/140392-wajahat-masood-column-2016-07-19-mithai-main-intiha-pansandi-ki-aludgi-aur-ghiarat-ka-lahu


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments