الجھے ہوئے لوگ


\"sanaنفسیات میں ایک اصول ہے کہ جس بچے پہ بے جا تنقید کی جائے وه چیزوں کو رد کرنا سیکھتا ہے…اگر تنقید برائےتنقید ہو اور اس کا کوئی مقصد نہ ہو تو وه ایک ایسے منفی رویے کو فروغ دیتی ہے جہاں بات اس لیے نہیں سنی جاتی کہ اسے سمجھا جائے بلکہ اس لیے سنی جاتی ہے کہ بغیر دلیل اور حوالے کے اس سے اختلاف کیا جائے۔ ایسا رویہ عدم برداشت اور جارحانہ ماحول کو تشکیل دیتا ہے جہاں افراد اپنے انداز فکر، روایت، عقائد اور سوچ سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کو تھوڑی سی جگہ دینے پر بھی رضامند نہیں ہوتے۔ جہاں اختلاف راۓ کا مطلب اعلان جنگ ہوتا ہے جہاں گفت و شنید کی کوئی گنجاش نہیں ہوتی اور اگر کہیں بحث و مباحثے کی صورت نکل بھی آۓ تو انداز اس قدر جارحانہ ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔

یہ منظر میرے لیے اور اس دور کے دیگر افراد کے لیے دیکھا بھالا ہے اس میں کچھ بھی نیا یا انوکھا نہیں ہے۔ وه گھریلو ماحول ہو، محلے کی سطح کی بات ہو ، کسی خاص کمیونٹی میں ہونے والا اختلاف ہو، قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث ہو یا کسی ٹی وی پروگرام میں بحث و مباحثے کی غرض سے بلائےگئےدانشور، مذہبی یا سیاسی رہنما ہوں وه آپس میں گفتگو کم کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر دوسرے کی آواز کو دبانے کی کوشش زیاده کرتے ہیں جو ایک جاہل اور برداشت کے وجود سے عاری معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔

کیا ایسا اس لیے ہے کہ لوگ سوچنا نہیں چاہتے یا سوچ نہیں سکتے یا بطور معاشره وه ایسی کشمکش کا شکار ہیں جو نہ تو انہیں معاملات کو سمجھنے دیتی ہے نہ ہی ایسا ماحول تشکیل دینے دیتی ہے جہاں ان کی صلاحیتیں نکھر سکیں یا پھر ان پر اس قدر بے جا اور منفی تنقید کی گئی ہے کہ وه ہر بات کو بنا سمجھے رد کرنا سیکھ گئے ہیں؟

یہاں بھی دو طرح کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ایک وه جو گوہر ہونے کے چکر میں اپنی ذات کے ذرے کو کسی سیپ کے ساتھ انتظار میں ایک ہی جگه رکے ہیں وه اعتقاد، روایات و روسوم کے اس قدر اندھے متعقد ہیں کہ اس بات کا یقین کیے بغیر کہ وه جس روایت کے سیپ سے گوہر ہونے کے چکر میں چپکے ہوئے ہیں۔ اس کے متعلق یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اس میں یہ صلاحیت موجود بھی ہے یا وه کھوکھلا اور نظر کا دھوکا ہے۔ ان کے ہاں سوال کرنا ، کسی بات کی کھوج لگانا ، کجھ جاننے کی کوشش کرنا ایک ایسا جرم ہے کہ جس کا تصور بھی محال ھے کیونکہ ایسی کسی سوچ اور کھوج کے نتیجے میں ان بنائے گئے بتوں کا ٹوٹنا ناگزیر ہوتا ہے جنہیں بنا سوچے سمجھے پوجنا ایک روایت ہے۔ یہ طبقہ سوچ ، سوال اور اعتراض کو گناہ سمجھتا ہے اس لیے ماضی سے اس قدر شدت سے جڑا ہوا ہے کہ حال میں رہنے اور مستقبل کے لیے کوشش ایک خوفناک غلطی سمجھتا ہے۔

دوسری طرف اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والا وه طبقہ ہے جو توجہ حاصل کرنے کے چکر میں بغیر اپنے مقاصد کا تعین کیےبنا کچھ سوچے سمجھے سماج کے ہر رسم ورواج سے بغاوت کرنے نکل پڑتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل لوگ منفرد سوچ کے دعویدار تو ہوتے ہیں لیکن نئی سوچ کے تصور سے قطعآ عاری ہیں۔ دونوں انداز فکر عدم برداشت کے ماحول کو فروغ دیتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید کے اس عمل میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش میں کسی تعمیری اور مثبت سرگرمی کا حصہ نہیں بن پاتے۔ کیا ہمارا معاشرہ ایک ایسی ابتری کی صورتحال کا شکار نہیں ھے جہاں کوئی بھی بات اور حوالہ چاہے وہ اخلاقی ہو ، جذباتی یا فکری واضح شکل نہیں رکھتا؟ اور اگر ایسا ہے تو اس صورتحال کو باقاعدہ تشکیل دیا گیا ہے یا یہ ایسے افراد کا مجموعہ ھے جو ہر قسم کی سوچ سے عاری الجھی ہوئی شخصیات پر مبنی ہے؟ ایسا کیونکر ہے؟ کیا ہم انفرادی اور مجموعی طور پر شناخت کے بحران کا شکار قوم نہیں ہیں؟ جو اپنی شناخت کے کھو جانے کے ایسے خطرے کا شکار ہیں جو ہمیں کچھ اور سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ جہاں اپنی ذات کو منوانے کے لیے کسی تخلیقی کام کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ شور اور طاقت کے زور پر اپنا آپ منوایا جاتا ہے ۔ جب فرد کی آزادی کے تحفظ کا اظہار یقینی ہو جائے تب صحتمند سوچ کا حامل معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں لوگ ریاست اور اسد سے جڑی شناخت ، پراپرٹی ہر چیز کو اون کرنے لگتے ہیں اور صحیح معنوں میں ایک قوم اور صحتمند معاشرہ وجود میں آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments