ترکی اور خوان یغما


خوان یغما ، مال غنیمت یا دولت کے بارے میں ترکوں کی ہوشیاری کی خواجہ حافظ تو بہت تعریف کرتے ہیں اور ہما رے خیال میں خواجہ کی \"naseer\"دانائی کو مسترد کرنا بھی ایک طرح کی نادانی ہے۔

اکیسیویں صدی کے اوائل ہی سے ترکی نے دولت اور ترقی کے بارے میں دانائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ایک متخب اسلامی حکومت کے زیر تحت ، ایک سیکیولر اسٹیبلشمنٹ کے دباو کا مقابلہ کرتے ہوئےاور ایک سیکولر آئین  کا احترام کرتے ہوئے ترکی نے بہت ترقی کی ہے۔

بی بی سی کے مطابق ترکی ایک مصنوعاتی اور برآمداتی طاقت بن گیا ہے۔ ترکی بحری جہاز، کاریں اور بجلی سے متعلق اشیا بناتا ہے۔ افراط زر جو نوے کی دہائیوں میں سو فیصد تک پہنچ گئی تھی، اس پر ترکی کی موجودہ حکومت نے قابو کر لیا ہے۔ ترکی کی معاشی ترقی کی شرح بھی گزشتہ سالوں چودہ سالوں میں شاندار رہی۔ کبھی دس فیصد کے ہندسے تک پہنچ گئی لیکن ماہرین کی رائے میں اس معاشی بڑھوتری کی شرح اوسط کے مطابق ان چودہ سالوں میں پانچ فیصد رہی۔

موجودہ حکومت کے تحت ترکی نے لوہا، فولاد اور دفاعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کیا۔ ہوائی اڈوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور عمارت سازی میں چائنہ کے بعد ترکی دوسرے نمبر پر ہے۔ ٹرینیوں کی  پٹڑیاں، موٹر ویز، ایکسپریس ہائی ویز، گیس کی پاائپ لائنیں ترقی کی تیز رفتاری کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔ پھر کروڑہا موبائل، چیند سیارے اور کچھ رسد گاہیں اور پھر زیر سمندر مواصلاتی نظام کی بہتری بھی ترکی کی موجودہ حکومت کی کار کردگی کے ثبوت ہیں۔ ترکی کی موجودہ حکومت نے سیرو سیا حت کی بھی ترویج کی ہے۔ دنیا کے بہترین سو ہوٹلوں میں سے گیارہ ترکی میں ہیں اور سیرو سیاحت کا ترکی کی معیشت میں دس فیصد حصہ ہے۔

غرضیکہ جمہوریت میں جیسے ترقی کا دستور ہوتا ہے ، چند برسوں میں سب کچھ اچھا اور بدلا بدلا سا نظر آنے لگتا ہے۔دنیا سے رابطے، ترقی کی جستجو، کاروباری مواقع کی تلاش۔ سرمایہ کاری کا حصول، تعلیمی نظام میں بہتری اور سماجی مشکلات کے حل ڈھوڈنا ترکی میں معاشی ترقی کا ایک اہم حصہ تھے۔

اسی صدی کے اولین برسوں میں یورپی اتحاد کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے ترکی نے شہریوں کے سماجی اور معاشی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی اٹھائے۔ ترکی نے فوج کا سیاسی کردار کم کیا، عدالت کی آزادی کے  لیے اقدامات اٹھائے، موت کی سزا کو ختم کیا۔ آزادی رائے اور آزادی اظہار کے لیے قانون سازی کی۔

علاوہ ازیں ترکی نے ان اولین سالوں میں صنفی برابری، بچوں کے حقوق کے تحفظ، قیدیوں کے حقوق کے تحفظ، سزاوں میں تخفیف کے حوالے سے بھی قانون منظور کیے۔ اور گرفتاری کے بعد ملزم کی عدالت کے سامنے سات دنوں  کے اندر پیشی کو قانونی طور پر یقینی بنایا۔ اور ریاستی تحفظ کی عدالتوں میں بھی ملزموں کی وکلا تک رسائی کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا۔

موجودہ حکومت نے تشدد کے خاتمے کے لیے قانونی اقدامات اٹھائے۔ علاوہ ازیں دہشت گردی کے قانون کے آرٹیکل 8 کا خاتمہ کیا جو زیادہ تر حکومت مخالف صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی نے حقوق کے متعلق عالمی کنونشنز بھی اختیار کیے۔جن میں سیاسی اور شہری حقوق اور سیاسی، ثقافتی اور سماجی حقوق کے عالمی معاہدے شامل ہیں۔ ترکی نے ریاستی سلامتی کی عدالتوں کا خاتمہ کر دیا اور شفاف حکومت کی ترویج کے لیے اقدامات اٹھائے۔

ترکی نے معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کے حصول کے لیے نہایت دانائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ یعنی خوان یغما تک رسائی کے لیے ترکوں نے قدامت پسندی کے باوجود ترقی کو اپنا لیا۔ اور ایک سیکولر آئین کے تحت ترکی  کی اسلامی حکومت ترکی کی فلاح کے لیے جمہوریت سے وابستہ رہی۔

پھر سمت غیب سے ایک ایسی ہوا چلی کہ سرور کا چمن جلنے لگا اور شاخ نہال غم بھی سوکھنے لگی۔ عالمی معاشی بحران کہ ٹھیکوں کے حوالے سے بد عنوانی کی معاشیات کا نتیجہ تھا معاشی نا ہمواری میں اضافہ کیا۔ طاقت  اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتے گئے اور پوری دنیا میں نفرت کا اضافہ ہونے لگا۔ ترکی بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پہلے یورپی یونین میں شمولیت کا خواب تلخی ایام کی نذر ہوا۔ ہم اور تم اور کے نعرے فضا میں بلند ہوئے اور ترکی کی حکومتی پارٹی اور اس کے رہنما صدر طیب اردگان کی انسانیت دوستی سے وابستگی میں دراڑیں  پڑنے لگیں۔

سب سے پہلے آزادی اظہار پر پابندیاں لگنے لگیں۔ عالمی ادارہ صحافت کے مطابق ترکی صحافیوں کا سب سے بڑا جیلر ہے۔ پھر ٹھیکوں میں کرپشن کی داستانیں عام ہوئیں۔پھر سپیکر نے سیکیولر آئین میں ترمیم کی تجاویز  کا سلسلہ شروع کیا۔ صدارتی نظام کے ذریعے خلافت کی بحالی کا سازشیں تیار ہونے لگیں۔ اور پھر پرہیزگار نسلوں کے قصیدے کہے جانے لگے۔ یورپی یکایک عیسائی ہو گئے، کردوں سے لڑائی شروع ہو گئی، اورپارلیمنٹ کے کرد اراکین کی تادیب کے لیے ان کا مقدموں سے استثنا ختم کر دیا گیا۔ اور دنیا سے تعلقات بگاڑنے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا۔

حال ہی میں ترکوں نے جمہوریت کے خاتمے کی ایک فوجی کوشش ناکام بنا دی ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے لیکن اس کوشش کی ناکامی کے بعد ایک خاص مذہبی طبقے، ایک خاص سیاسی پارٹی کے ذریعے فرد واحد کی آمریت  کے سیاہ امکانات کے خط و خال بھی ترکی میں واضح ہوتے جا رہے ہیں جو کہ ایک خوشگوار بات نہیں ہے۔

فتح محمد گولن کے نام کا ایک جمہوریت دشمن شیطان بھی موجود ہے، جسے ہر قسم کے مخالفین میں دیکھا جائے گا۔ فوجیوں نے بغاوت کی ہے اور فتح محمد گولن کو منصفوں میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ فتح محمد گولن صحافیوں  میں، افسروں میں، کاروباریوں میں، ماہرین تعلیم میں ، سیاستدانوں میں اور غیر ملکیوں میں ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن فتح محمد گولن اور اس کے حامیوں کی تلاش میں آئین نے جو تحفظ فراہم کیے ہیں، وہ شہریوں سے چھین نہ لیے جائیں۔ یہ ایک خدشہ حقیقت بنتا نظر آرہا ہے۔

ترک عوام یہ ابھرتی ہوئی آمریت روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سیکیولر آئین کا تحفظ اپنے ووٹوں اور احتجاج کے ذریعے یقینی بنائیں۔ اور طیب اردگان سے نجات حاصل کرنے کی فکر کریں  کہ جن وجوہات کی بنیاد پر ترکی نے ترقی کی، طیب اردگان ان وجوہات کے مخالف ہو گئے ہیں۔ترکوں کا یہ فرض ہے کہ اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لیے طیب اردگان کو فیصلوں سے دور کردیں اور اس کے بعد ان کی خدمات ہمیشہ کے لیے سراہتے رہیں۔

امید ہے کہ ترکوں نے خوان یغما تک رسائی کے لیے جس دانائی کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ اپنی معاشی، جمہوری اور ثقافتی ترقی کے لیے بھی اسی دانائی سے فیصلے کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments