ترک بغاوت اور عمران خان کی خوش فہمی


\"edit\"یوں تو یہ بات بہت طریقے سے بہت لوگوں نے دہرائی ہے کہ پاکستان میں فوج کے کسی ٹولے کی طرف سے بغاوت کی کوشش کو عوام کے تعاون سے دبانا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، نواز شریف دشمنی اور ہوس اقتدار میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے یہ بات برملا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ اگر پاکستان میں ترکی ہی کی طرح فوجی بغاوت کی کوئی کوشش ہوتی تو لوگ مٹھائیاں بانٹتے۔ عمران خان جتنے سادہ لوح ہیں انہوں نے صورت حال کی اتنی ہی سادہ وضاحت بھی پیش کی ہے، کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے عوام کی خدمت کی، ملک کو دولت مند بنایا، اس لئے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف نے خود اپنی اور اپنے خاندان کی دولت میں اضافہ کیا اور ملک کو لوٹ کر کھا گئے۔ اس لئے لوگ فوج کی بغاوت پر خوشی کے شادیانے بجائیں گے۔ عمران خان نے البتہ یہ وضاحت نہیں کی کہ ایسی صورت میں وہ خود کیا کریں گے۔ کیا وہ اور ان کی پارٹی کے رہنما مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر فوجی ٹینکوں کی طرف سے عوام کے حق حکمرانی کو کچلنے کا خیر مقدم کریں گے یا وہ اسے غلط اقدام قرار دیتے ہوئے مسترد کریں گے اور ایک حقیقی جمہوری لیڈر کا کردار ادا کریں گے۔ ان کی باتوں سے البتہ یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ عمران خان شادیانے بجانے والے اور بھنگڑے ڈالنے والوں میں شامل ہوں گے اور جب باغی جرنیل اپنی غیر آئینی حکمرانی کو سیاسی رنگ دینے کےلئے ہم خیال سیاستدانوں کو جمع کرے گا تو خان صاحب اس قطار میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے۔

اس بیان اور عمران خان کے طرز عمل سے ایک بات تو واضح ہو چکی ہے، جو بات اس ملک کے بیشتر سیاسی ماہرین اور مبصرین کو کافی عرصہ سے معلوم تھی، اب عمران خان بھی اس کا ادراک کرنے لگے ہیں، یعنی انہیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ اس لئے اب وہ اپنے سیاسی موقف کےلئے جو بھی دلیل دیں اور برسر اقتدار لوگوں کے کردار کی کیسی ہی بھیانک تصویر دکھائیں، تاہم فوج کے ذریعے اقتدار سنبھالنے کے لئے ان کی بیتابی سب پر عیاں ہو رہی ہے۔ کسی ملک میں جمہوریت کے ارتقا اور فروغ کےلئے اس سے بری خبر کیا ہو گی کہ اس میں عمران خان جیسے لیڈر موجود ہوں، جنہیں لاکھوں لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن وہ جمہوریت کے بنیادی اصول سے بھی ناواقف ہیں۔

جمہوریت میں زور زبردستی نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں جھوٹے الزامات لگا کر مخالفین کو عاجز نہیں کیا جاتا اور کوئی جمہوری لیڈر خود اپنی کامیابی کےلئے غیر جمہوری عناصر کی انتظام حکومت میں مداخلت کو درست قرار دینے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس حوالے سے عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کو ترکی کے ہی تجربہ سے یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ وہاں پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے فوجی ٹولے کی بغاوت کے خلاف یکساں شدت سے آواز بلند کی تھی۔ یہ ساری پارٹیاں صدر طیب اردگان اور ان کی اے کے پارٹی کے ساتھ شدید اختلاف رکھنے کے باوجود یہ تصور کرنے کےلئے بھی تیار نہیں تھیں کہ کوئی فوجی ٹولہ ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دے۔ کیونکہ جمہوری نظام میں سیاسی رہنما کے طور پر اصلاح کی کوشش کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہ اپنے منشور پر اسی صورت میں عمل کروا سکتا ہے، اگر لوگوں کے حق رائے پر ڈاکہ نہیں ڈالا جائے گا اور بہر صورت عوام کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے گا۔ اگر یہ بات عمران خان سمجھ پاتے تو شاید وہ بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ کےلئے کوئی کردار ادا کر سکتے۔ اب وہ صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ کوئی جرنیل کسی جائز حکومت کا ناجائز طریقے سے تختہ الٹ کر عمران خان کو وزیراعظم بنا دے گا۔ اگرچہ دل کے خوش رکھنے کےلئے ایسا تصور کر لینا ان کا حق ہے لیکن اگر وہ خواب غفلت سے بیدار ہو سکیں تو جان سکیں گے کہ اس بات کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک تو اس لئے بھی کہ پاکستان میں تمام تر افواہوں ، خواہشوں اور اکسانے کے باوجود یہ امید برقرار رہنی چاہئے کہ فوج میں اتنی بلوغت آ چکی ہے کہ وہ ملک کے انتخابی نظام میں مداخلت کرنے کا خطرہ مول لینے کےلئے تیار نہیں ہو گی۔ اگرچہ بعض لوگ بدستور یہ کہیں گے کہ یہ توقع ایک سنہرے اصول کو مانتے ہوئے قائم کی جا رہی ہے، وگرنہ زمینی حقائق سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس سچائی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اقتصادی اور سیکورٹی کے شعبوں میں ایسے خطرات سے دوچار ہے کہ فوج تن تنہا ان مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔ اس سچائی کا ادراک فوج اور اس کے سربراہ سے زیادہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔

ایک طرف افغانستان میں امن بحال ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس کا سارا الزام پاکستان پر دھرا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر فوج اقتدار سنبھال لیتی ہے تو اس کےلئے اس صورتحال کی وضاحت کرنا آسان نہیں ہو گا۔ دوسری طرف عالمی سطح پر بھارت کی منفی سفارتی کوششوں کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔ ملک میں ایک سیاسی حکومت کے ہوتے یہ دعویٰ تو بہر صورت کیا جا سکتا ہے کہ جمہوری نظام میں عوام کے منتخب نمائندے درپیش مسائل کو حاصل ہونے والے مینڈیٹ کے مطابق ہی حل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ سہولت کسی بھی ملک کی فوجی حکومت کو بہرحال حاصل نہیں ہوتی۔ اسی تصویر کا تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ چین، پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے تحت پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس منصوبہ سے فوج کا مفاد بھی وابستہ ہے لیکن ملک میں آمرانہ نظام مسلط ہونے کی صورت میں اس منصوبہ کو غیر متوقع خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ایک جمہوری حکومت کے توسط سے فوج معاملات میں شراکت دار بن کر ملکی مفادات کےلئے بہتر و موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس سے زیادہ زمینی حقیقت کیا ہو گی کہ فوج بوجوہ اس وقت ملکی معاملات میں دخیل ہے۔ خارجہ اور سیکورٹی کے تمام معاملات فوج کے مشورہ اور رہنمائی کے بغیر طے نہیں پا سکتے۔ اس صورت میں کوئی ذی ہوش جرنیل کیوں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر دائمی تہمت بھی سمیٹے گا اور حالات کو بھی مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔

روزنامہ ڈان نے رپورٹ شائع کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے اور چینی حکام کی یہ خواہش ہے کہ حکومت فوج کو بھی اس منصوبہ پر عمل کےلئے شراکت دار بنائے، جبکہ وزیراعظم نواز شریف یہ رائے ماننے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ وہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کےلئے اقتصادی راہداری کے ثمرات کا پورا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ تاکہ لوگ ایک بار پھر ان کی پارٹی کو ووٹ دیں۔ اس رپورٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منصوبہ پر عملدرآمد کےلئے فوج کی شرکت کے بارے میں چین دباؤ ڈال رہا ہے۔ چین سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ ٹیکنیکل امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں سول انتظامیہ کے پاس ایسا ڈھانچہ موجود نہیں ہے کہ اس عظیم منصوبہ پر کسی رکاوٹ کے بغیر عمل کیا جا سکے۔ لامحالہ ایسے مراحل میں فوج کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ اس سے پہلے بھی فوج چینی کارکنوں کے تحفظ کےلئے ایک ڈویژن فوج قائم کر چکی ہے۔ اگر اس حوالے سے وزیراعظم یا ان کے ساتھی کچھ شبہات کا شکار ہیں بھی تو بھی انہیں حل کر لینا ہی سب کے فائدے میں ہے۔ نواز شریف نے ماضی میں جو سیاسی تجربے کئے ہیں، ان کی روشنی میں ان سے مثبت اور قابل عمل فیصلوں کی توقع کی جانی چاہئے۔ انہیں اپنی انا اور اپنے ساتھیوں کے مفاد کو اہم قومی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنانا چاہئے۔

سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے شبہات اور متضاد خبروں سے قطع نظر پاکستان میں فوج بغاوت کے امکانات اور ترکی طرز کے ردعمل پر بات کرنے سے پہلے پاکستان کے لوگوں اور عمران خان جیسے لیڈروں کو یہ اہم نکتہ بھی باور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکی میں جمعہ کو فوجی بغاوت کی کوشش فوجی افسروں کے ایک محدود گروہ نے کی تھی۔ فوج بطور ادارہ اس قسم کی کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھی۔ اگر ترک فوج اور اس کے کمانڈر صدر اردگان کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرتے تو شاید اردگان کےلئے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کو فوج کے مقابلے پر اتارنا ممکن نہ ہوتا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ترک فوج ملک میں اپنے آئینی رول سے مطمئن ہے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، ان حدود سے تجاوز کرنے پر تیار نہیں ہوئی جو ملک کا آئین اور اس کےلئے متعین کرتا ہے۔ اس لئے یہ بغاوت صرف ملک کے جمہوری نظام کے خلاف نہیں تھی بلکہ فوج کی اعلیٰ کمان اور فوجی ڈسپلن کے بھی خلاف تھی۔ اس لحاظ سے یہ ایک خطرناک صورتحال تھی جس کا مقابلہ ملک کی سیاسی قیادت اور فوجی لیڈروں نے یکساں ہمت و حوصلہ کے ساتھ کیا ہے۔

پاکستان میں فوج بطور ادارہ کبھی اس قسم کے انتشار کا شکار نہیں ہوئی۔ اگرچہ بعض انفرادی کوششیں ضرور کی گئی ہیں لیکن فوج کے اپنے ہی نگرانی کے نظام نے اس قسم کی سازش کو پنپنے سے پہلے ہی کچل دیا تھا اور متعلقہ افسروں کو مناسب سزائیں بھی دی گئی تھیں۔ پاک فوج اب بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کےلئے نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس میں ترک فوج کی طرح بڑے پیمانے پر خود سری اور سرکشی کرنے والے عناصر موجود نہیں ہیں۔ اس قسم کی فوجی بغاوت، جس کا مظاہرہ ترکی میں ہوا ہے، نہ صرف جمہوری نظام کو تباہ کر سکتی ہے بلکہ فوجی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس لئے ترکی میں ہونے والی بغاوت کی طرز پر پاکستان میں فوجی بغاوت کی امید یا خواہش کرنے والوں کو عقل کے ناخن لیتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک کی سلامتی اور درپیش مشکلات کا سامنا کرنے کےلئے فوج کی یکجہتی بے حد ضروری ہے۔ اس پر کوئی آنچ آنے کی صورت میں پاکستان کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو گا۔

ترک صدر اور حکومت ناکام بغاوت کے بعد بعض انتہائی اقدام کر رہے ہیں۔ ملک کے فوجی و عدالتی نظام پر مکمل کنٹرول کی کوشش ہو رہی ہے۔ فوج کے تین ہزار افسروں و جوانوں کے علاوہ 8 ہزار پولیس اہلکاروں کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ موت کی سزا بحال کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے اور بعض وزیروں نے درپردہ امریکی سازش کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اس معاملہ پر مزید بحث کرنے کی بجائے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ سازشیں بھی انہی ملکوں میں پنپتی ہیں جہاں نظام میں کمزوریاں ہوں اور سیاسی لیڈر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہے ہوں۔ ترک سیاسی قیادت سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اگر وہ ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے، ایک کامیابی کے بعد مزید غلطیوں کا ارتکاب کرے گی تو بے چینی، اضطراب اور مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کا کوئی دوست پاکستان میں ایسے حالات کی امید اور توقع نہیں کر سکتا اور نہ ایسی حالت میں مٹھائی تقسیم کرنے کی کوشش کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments