۔۔۔ یہ ہم اللہ والے


\"farnood01\"کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں واقع فیکٹری کے مالکان نے ملازمین کو عید الاونس دینے میں تاخیر کردی۔ ایک متحرک ملازم کا ناریل چٹخ گیا اور اس نے فیکٹری کے دیگر ملازمین کو احتجاج پر انگیخت دلادی۔ رمضان کے آخری عشرے میں ملازمین نے اکٹھ کیا ، ڈنڈے اٹھائے، جنگ کا طبل بجایا، فیکٹری کی پارکنگ میں توڑ پھوڑ جلاو گھیراؤ شروع کردیا۔ جس چیز پہ سب سے زیادہ ہاتھ صاف کیا وہ پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گاڑیاں بھی فیکٹری ہی کے دیگر ملازمین کی تھیں جن میں مہران جیسی کم قیمت گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی شامل تھیں۔

خیر۔!

گھمسان کا رن پڑتے ہی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ گاڑی کی چھتوں اور بونٹ پہ ڈنڈے مار مار کے جتنا بھرکس نکا جا سکتا تھا نکالا گیا۔ ہر ڈنڈے کے ساتھ ایسی قافیہ بند گالیاں نکلتیں کہ جو کسی کتاب میں ملیں نہ کتاب کے حاشیئے میں۔ یہ سارے لونڈے لپاڑے جب قطار میں کھڑی بہت ساری گاڑیوں کا سواگت اور تین گاڑیوں کا کریہ کرم کرچکے تو دور کھڑی ایک بوسیدہ سی مہران کار کی طرف متوجہ ہوئے۔ استخارہ کیا تو جواب آیا کہ یہ مہران کیوں محروم رہے، کیوں نہ اسے بھی شمشان گھاٹ پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ اذن ہوتے ہی لہو گرم نوجوان پلٹ جھپٹ کر اس کار کے پاس پہنچے۔ یہاں میں نے ایک ایمان افروز منظر دیکھا، جو میں آپ کو سنائے بغیر رہ نہیں سکتا۔

سنیئے گا۔!

ایک جانباز نے مہران کا اگلا شیشہ توڑا۔ دوسرے عقابی روح والا مہران کی چھت بجانے لگا۔ تیسرے شکرے نے گاڑی کے کان کترنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس سپاہ کا چوتھا کڑیل سپاہی جس نے کلے میں میں پوری داب رکھی تھی، مہران کے پچھلے شیشے کے سامنے آکر کھڑا ہوا، کسی نامعلوم شخص کی اماں اور بہن کو یاد کیا، پھیپڑوں کی ساری توانائی جمع کی، دونوں ہاتھوں سے ڈنڈا لہراتا ہوا پیچھے کمر کے پاس لیکر گیا، ابھی گاڑی کے عقبی شیشے پہ برسنے کو ہی تھا کہ معرکہ حق وباطل کے سالار نے پیچھے سے آکر ڈنڈا پکڑا اور غصے میں کہا

’’ابے تو پاگل واگل تو نہیں ہوگیا، اندھے کی نسل شیشے پہ اتنا بڑا اللہ کا نام لکھا ہوا ہے تجھے دکھائی نہیں دے رہا کیا سالے‘‘

سالار نے مہران ہی کے اطراف میں تندہی سے اپنے تخریبی فرائض انجام دینے والے تین نوجوانوں کو حکم دیتے ہوئے کہا

’’ابے او! ادھر آ یہ اللہ کا نام ہٹا فوری فوری‘‘

ڈنڈا بردار سپاہی شیشہ توڑنے کو بے تاب کھڑا رہا، باقی جانبازوں نے جلدی جلدی اللہ کے نام کا اسٹیکر ناخنوں سے کھرچ کر زمین پر پھینکنا شروع کیا، جب ٹھیک سے اللہ کا نام و نشان مٹ گیا تو تینوں جانباز آگے سے ہٹے، ڈنڈا بردار سپاہی نے ازراہ نصرت پھر سے وہی گالم گفتار دوہرائی، رمضان بھر کا خلوص مجتمع کیا، ڈنڈا اٹھا کے شیشے پہ دے مارا اور اللہ کے حکم سے شیشہ کرچی کرچی فرش پہ بکھر گیا۔ اسی اثنا میں گاڑی کا مالک پہنچا، وہ صدمے سے سر پکڑ کے کھڑا ہوا، کتری ہوئی گاڑی پہ ایک بے بس سی نگاہ ڈالتے ہوئے گلو گیر لہجے میں فقط اتنا کہا

’’یار میں نے کیا بگاڑا ہے تم لوگوں کا۔ میری گاڑی کیوں توڑ دی؟‘‘

گاڑی کا مالک تو اس کہانی میں جملہ معترضہ بن کر یونہی بیچ میں آگیا۔ یہ اہم بات نہیں ہے، اہم مدعا اور ہے۔ مدعا میرا احساس ہے، اسی طرف چلتے ہیں

یقین جانیئے۔!

حق وباطل کا یہ معرکہ دیکھا تو فخر سے میرا سینہ پھول گیا، رب کا شکر ادا کیا، اطمینان ہوا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی امت مسلمہ کو ایسے خدا پرست نوجوان میسر ہیں جو گھروں میں ڈاکہ ڈالتے وقت آیۃ الکرسی کا ورد کرتے رہتے ہیں، انسان کو قتل کرتے وقت کلمہ طیبہ اور تکبیر پڑھتے ہیں، گاڑی چھیننے کی کاروائی پہ نکلتے وقت چاروں قل پڑھ کر خود پہ پھونک لیتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری واردات کے دوران اس بات کا پورا پورا دھیان رکھتے ہیں کہ کہیں اللہ اور اس کے رسول کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔ اگر ذرہ بھر گستاخی بھی ہوگئی تو کہیں خدا روز حشر وارداتوں کا حساب نہ مانگ لے۔ ایسے میں ہم کیا جواب دیں گے؟

یاد رکھیے۔!

جب تک اس امت میں بے ایمانی کے امور پوری ایمانداری سے انجام دینے والے یہ بیدار نوجوان موجود ہیں اس امت کو ذلت آمیز کامیابیاں حاصل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

رہے بس نام خدا کا۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments