ایدھی اور گروہِ اربعہ پاکستانیہ


حمزہ بلوچ

\"hamza1\"عبد الستار ایدھی جیسا انسانیت کا مسیحا کسی بھی تعرف کا محتاج نہیں ان کی شخصیت کے تعارف پر لکھنے کی بجائے آج پاکستانیوں کے چار گروہوں پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایدھی صاحب کی موت کے بعد اچانک سے چار طرح گروہ منظر عام پر آگئے:

      • پہلا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے ایدھی صاحب ایک کافر و ملحد تھے۔

 

      • دوسرا گروہ وہ جو ایدهی کو سامراج کی ڈهال مانتا ہے۔

 

      • تیسرا گروہ وہ جو ایدهی کو ایک اچها مسلمان اور بس انسان مانتا ہے۔

 

    • چوتھا گروہ وہ جو اس بات کا قائل ہے کہ ایدهی صاحب سوشلسٹ تهے۔

پہلے گروہ میں بلند پایا علمائے اسلام شامل ہیں جو ایدهی کو کافر و ملحد کہتے ہیں اور ان کی نمازِ جنازہ میں بھی یہ مذہبی علماء شریک نہیں ہوئے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طبقے میں ایدھی کے لئے کتنی نفرت پائی جاتی ہے۔ اس طبقے پر بات کرنا بهی بیکار ہے۔

دوسرے گروہ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام عمر انقلاب کی بهاڑ جهونکتے ہوئے چائے کی پیالی اور سگریٹ میں گزار دی کہ اب انقلاب آیا تو کل انقلاب آیا۔ بس یہ ایدهی کم بخت انقلاب کے راستے سے ہٹ جائے کہ اس کی وجہ سے انقلاب رکاوٹ کا شکار ہے۔ یہ جس دن مر جائے گا اس دن انقلاب آجائے گا۔ جب تک یہ زندہ رہے گا لوگوں کو علم نہیں ہوگا کہ بهوکے کو کهانا اور چهت دینا ریاست کا کام ہے نا کہ ایدهی کا۔

تیسرا گروہ سب سے زیادہ عجیب و غریب گروہ ہے جو پاکستانیوں کا اکثریتی گروہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایدهی کو ایک اچها سلجها ہوا مسلمان بهی مانتے ہیں اور سب سے پہلے اس کو بس ایک انسان مانتے ہیں۔ یہ وہ اشکال میں گھرے لوگ ہیں جن کو ایدهی کے ستانے اور دهمکی دینے والے حمید گل سے بهی عشق ہے اور ایدهی سے بهی الفت ہے۔ یہ ہر جگہ کوئی درمیانی راہ نکالنے میں لگ جاتے ہیں وہاں بهی جہاں کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ لوگ ایدهی کے دشمن دین فروش ملاوں کی بهی بے پناہ عزت کرتے ہیں مگر یہ لوگ ایدهی کے اپنے نظریاتی ہیرو کارل مارکس و لینن سے ایسا ڈرتے ہیں جیسے ابهی اپنی قبروں سے باہر آ کر یہ دونوں حضرات ان صاحبان کو کلمہ کمیون ازم پڑھانے آجائے گے وہ بهی تلوار کی نوک پر۔

چوتها گروہ وہ لوگ جو کبهی ایدھی صاحب کے دشمن نہیں رہے اور ہمیشہ ان کو اپنا مانا اور انہیں ایک نظریاتی سوشلسٹ جانا۔ اس میں خود ایدهی کے بیٹے فیصل ایدهی بهی شامل ہیں۔

اب آتے ہیں اس عجیب مخلوق کی طرف جو ایک ریاستی بیانیہ رائج کرنا چاہتے ہیں اور یہ لوگ تیسرے مکتبِ فکر سے زیادہ قریب ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جب ملک میں شیعہ مذہب کی بنیاد پر قتل ہوتا ہے تو فوراً سے کہتے ہیں \”یہ مت کہو کہ شیعہ مرا بلکہ کہو کہ صرف مسلمان مرا\” اور جب کوئی احمدی مرتا ہے تو کہتے ہیں \”یہ نہ کہو کہ احمدی مرا کہو بس انسان مر گیا\” اور جب کسی بھی ماتمی جلوس پر دهماکے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ \”دهماکے تو فوجی تنصیبات پر بهی ہوتے ہیں، یہ بولو صرف پاکستانی ہی مرے ہیں\”

یہ ایک خاص قسم کے لوگ ہیں جن کا کام ہی ہمیشہ حقیقت سے بهاگنا اور حقائق جهٹلانا ہے اور اپنی سوچ کے علاوہ کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے کسی نظریہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ کسی مذہب یا رنگ و نسل کی قید کے انسانوں کی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ روتھ فاؤ جو ایک جرمن خاتون ہیں مگر اپنی جوانی سے اب بڑهاپے تک وہ کوڑ و جزام کے مریضوں کو بغیر کسی خاص نظریے کے خدمات فراہم کر رہی ہیں اور پاکستان میں اپنی پوری زندگی گزار چکی ہیں۔
\"edhi2\" دوسری طرح کے لوگ وہ ہیں جو انسانیت کی خدمت کسی خاص نظریہ کے تحت کرتے ہیں یا انہیں زندگی میں کسی خاص نظریہ نے ایسا متاثر کیا ہو کہ وہ اس کے جنون میں غیر معمولی کام انجام دے دیں۔ جیسا کہ مدر ٹریسا جو انسانی خدمت کا جذبہ رکهنے والی مشہور شخصیت تهیں مگر مذہب کے حوالے سے وہ ایک مسیحی نن تهیں اور اپنی انسانی خدمات کے جذبات کو عیسائیت سے منسوب کرتی تهیں اور مسلم دنیا میں بهی ایسے کافی لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسلام نے ہی ان کو انسانیت سکهائی اور ہمیں ان کی اس بات کے ماننے سے کوئی انکار نہیں ہے۔

اب جب بات ایدهی کی آئی تو ایدهی کو جس نظریہ نے انسانیت کی خدمت کرنا سکهایا یہ بات جان کر انجان بننے والے الباکستانیوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔

ایدهی صاحب نے فرمایا \”میں نے مارکس و لینن  کی کتابیں پڑهی ہیں۔ میں نے کربلا والوں کی زندگیاں پڑهی ہیں۔ میں نے ابوذر غفاری کے بارے میں پڑها ہے۔ میں تمہیں بتاتا چلوں کہ اصل جنگ ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم اور امیر و غریب کی جنگ ہے۔\”

ایدهی کا یہ بیان کسی ایٹم بم سے کم نہیں اور اس کو جهٹلانا اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ ہر لحاظ سے ریاستی بیانیہ کے خلاف ہے۔ مارکس و لینن سے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ ایدهی صاحب نظریاتی طور پر ایک سرخے سوشلسٹ ہی تهے اب کوئی لاکھ منع کرتا پهرے اس بات کی تصدیق خود ان کے اپنے بیٹے فیصل ایدهی بهی کرچکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ ایدهی کو ستانے والے سرمایہ دار اور مولوی ہیں۔

اور آخر میں ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم اور امیر و غریب کی بات کر کے بتا دیا کہ طبقاتی تفریق ہی دنیا میں مسائل کی اصل جڑ ہے۔

یہ الفاظ نہیں بلکہ ایدهی کی جانب سے میزائل حملے ہیں اور اب پوری کوشش کی جا رہی کہ ایدهی کی قبر پر انہی بتوں کو دوبارہ کهڑا کیا جائے جن کو ایدهی نے خود گرایا تها۔
پهر جو لوگ ایدهی کو گاندهی بنانے پر تلے ہیں وہ بهی جان لیں کہ ایدهی مزاحمت پر یقین رکهتے تهے۔ ہیرلڈ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے ایک کم طاقت والے گروہ سے کہا تها جب تمہیں مارنے کے لئے لوگ آئیں تو ان پر پتهر مارا کرو اور ریاست سے کہا تها کہ فورس کا استعمال کر کے کمزور کو تحفظ دو۔

ایک سیدهی اور آسان بات ہے جب ایک بندہ خود بول گیا کہ وہ کس نظریہ سے متاثر تها اور اس کا بیٹا اس کی تصدیق بهی کر رہا ہے تو پهر آپ کو یا ہم کو کیا تکلیف اور پریشانی ہے؟
ہم کون ہوتے ہیں اس بات کو جهٹلانے والے یا اس کو دبانے والے؟
اگر واقعی یہ دعویٰ ہے کہ بچہ بچہ ایدهی ہو تو ایدهی ایمبولینس دکهانے سے تو بچہ ایدهی نہیں بنتا بلکہ ایدهی جن نظریہ سازوں سے متاثر تها ان کے بارے میں بتانے سے لوگوں میں آگہی و شعور بیدار ہوتی ہے۔
اب ایدهی کو نوبل انعام والوں نے کبهی نہیں پوچها اور ایدهی نے خود بهی ان کو گهاس نہیں ڈالی مگر ایدهی کو سوویت یونین نے اپنا انعام یعنی لینن امن ایوارڈ دیا اور اس کو ایدهی نے خوشی خوشی قبول بهی کیا۔ اب اس کے بعد بهی کیا گنجائش رہ جاتی ہے یہ ماننے میں کہ ایدهی ایک سوشلسٹ تهے؟ ایدهی نے حال ہی میں ایک بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی مالی امداد بهی کی تهی جس کی تفصیلات وہ جماعت خود یا پهر ایدهی خاندان فراہم کرسکتے ہیں مگر اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ ایدهی کس فکر کے حامی تهے۔ تو اے میرے الجھے ہوئے کی بورڈ جہادیوں اور ممی ڈیڈی ہیومنسٹ بچوں اس بات کو تسلیم نہ کرنے اور میں نہ مانو کی رٹ لگانے سے کیا حاصل جب اتنے واضح دلائل موجود ہیں کہ ایدهی ایک نظریاتی سوشلسٹ تهے اور اسی نظریے پر ایدهی ادارہ قائم و دائم ہے۔ بقول فیصل ایدهی اگر فٹ پاتھ پر بهی آگئے تو بهی اس ہی نظریہ پر یہ ادارہ چلائیں گے۔

اب یہ کوئی مذہبی مسئلہ تهوڑی ہے کہ جناب فیصل ایدهی اپنے والد کے خیالات بیان کریں تو آپ ان کو منہ پر رد کردیں اور بولیں کہ ہم آپ کے باپ کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔

بہت کهیل لئے شناخت، نظریہ، جنازے چهپنے چهپانے کے کهیل اب کهل کر حقائق تسلیم کریں۔ وہ زمانے گئے جب محمد علی جناح اور فاطمہ جناح کی  مذہبی شناخت چھپانے کی کوشش کی گئی۔ اب اگر نظریہ چھپاؤ گے یا جنازہ چهینو گے تو لوگ بولیں گے اور اب اس دور میں سچ بولنے سے لوگوں روکنا خاصا مشکل کام ہے۔ تو بہتری اس میں ہی ہے کہ پچهلے ستر سالوں سے لے کر ایدهی صاحب تک کے زمانے کا ٹریک ریکارڈ درست کیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments