لڑکی، تعلیم اور مہنگی شادی


\"lubnaقندیل بلوچ، ایک معصوم اور بے گناہ لڑکی، کے قتل پر مجھے شدید دکھ محسوس ہوا۔ لیکن یہ لڑکی وہ کام کر گئی جو بہت ساری نیک پروین آنٹیاں‌ ساری مل کر کبھی نہیں‌ کر پائیں۔ وہ کام ہے قانون میں‌ تبدیلی۔ شرمین چنائے ٹھیک کہتی ہے کہ جب تک لوگوں‌ کو پتا نہیں‌ چلے گا کہ قتل جرم ہے اور ان کو اس کی سزا ملے گی تب تک وہ یہ قتل کرنا کیسے چھوڑیں‌ گے۔

قندیل بلوچ کی کہانی ہمارے تمام معاشرے کی کہانی ہے۔ میرے خیال میں‌ جو لوگ ذہین ہوں اور محنتی ہوں‌ ان کو آگے بڑھنے میں‌ مدد کرنی چاہئیے۔ اب ذہین لڑکی سے پکوڑے پکوائیں‌ اور غبی لڑکے کو ڈرائنگ روم میں‌ بٹھا کر یہ پکوڑے کھلائیں‌ تو معاشرہ کیسے آگے بڑھے گا؟ اپنی بیٹیوں‌ کو سہارا دینا ہوگا، ان کو طاقت ور بنانا ہوگا۔ کسی کی کیا مجال کہ کچھ دروازے پر آکر بولے۔ اپنے بیٹوں‌ کو آپ سکھائیں‌ ہی نہیں‌ کہ ان کی عزت بہن کی ٹانگوں‌ کے بیچ میں‌ ہے۔ ان کو برابر مواقع دیں‌۔ اگر لڑکی زیادہ ہوشیار اور ذمہ دار ہے تو اس کو اپنے بھائی سے زیادہ سہولیات ملنی چاہئیں۔

جیسا کہ میں‌ نے اپنی پچھلی تحاریر میں‌ بھی ذکر کیا ہے، زندگی ہر انسان کو سکھاتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں‌ ہوا کہ ایک دن صبح ‌میں‌ نے کروٹ لی اور ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر کھڑی ہو گئی۔ جو انسان جہاں‌ بھی پہنچ جائے اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہوتی ہے۔ میں‌ یہ کہانی اس لئیے سنانا چاہتی ہوں‌ تاکہ جو لوگ اس سفر میں‌ ہوں‌ ان کو رہنمائی ملے؟

امریکہ آانے سے بہت پہلے ہم لوگ سکھر میں ‌ڈسٹرکٹ کونسل روڈ پر رہتے تھے۔ میرے والد علی گڑھ انڈیا کے مضافات میں‌ موجود قصبہ سکندرہ راؤ میں‌ ایک سادہ سے گھر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پاکستان بننے کے بعد 11 سال کی عمر میں ‌حیدرآباد آگئے تھے جہاں‌انہوں‌نے ہمارے پھوپھا سے نقشے بنانا سیکھا اور سکھر آکر اپنی آئیڈیل کنسٹرکشن کمپنی اسٹارٹ کی۔ جب انہوں‌نے آفس کھولا تو اس وقت ان کے پاس پیسے بالکل نہیں‌تھے لیکن فرنیچر والے صاحب نے کہا کہ فرنیچر لے جاؤ اور جب پیسے ہوں‌ تو دے دینا۔ سنا ہے کہ تین دن تک انہوں‌نے چنے کھائے۔ پھر تیسرے دن کسی نے ان کو نقشہ بنانے کے لئیے کہا۔ آہستہ آہستہ وہ سکھر میں ‌بہت کامیاب ہو گئے تھے اور انہوں‌نے وہاں‌ کافی عمارتیں‌ بنائیں جن میں‌ غنی ہاؤس، پیرزادہ ہاؤس، پبلک اسکول کا بورڈ روم، ڈاکٹر میمن کا کشتی والا گھر اور انور پراچہ ہسپتال شامل ہیں۔

میرے نانا پولیس میں ‌دیوان جی ہوتے تھے۔ جب پاکستان بنا تو انہوں‌نے اپنا تبادلہ یوپی سے سکھر کرالیا۔ مجیب ماموں‌اور میرے والد دوست تھے اور اس طرح میرے والدین کی ارینجڈ شادی ہوئی۔ شادی کے وقت میری امی صرف 16 سال کی تھیں۔ یعنی کہ وہ مجھ سے صرف 17 سال بڑی ہیں۔ پھر ایک کے بعد، چار بچوں‌کے بعد ابو کا انتقال ہو گیا۔

ہم لوگ ایسے ہی ایک رات صوفے کی گدیوں کے گھر بنا کر کھیل رہے تھے تو فون کی گھنٹی بجی۔ کیپٹن یوسف کا فون تھا جو پبلک اسکول سکھر کے پرنسپل تھے اور میرے ابو کے دوست بھی تھے۔ انہوں‌نے کہا کہ آپ کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ابو پبلک اسکول میں‌ ان کے گھر سے شکار پور روڈ سے گھر واپس آ رہے تھے جب یہ حادثہ ہوا۔ میری امی نے ہماری ماسی سے کہا کہ چھوٹے بچے دیکھو، پھر وہ اور میں ‌رکشہ میں‌بیٹھ کر سول ہسپتال گئے وہاں‌میں‌نے اپنے والد کو بہت ساری نلکیوں اور پٹیوں میں‌لپیٹا دیکھا۔ وہ بات کرسکتے تھے۔ آُپریشن ہوا سکھر میں ‌لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ پھر میرے ماموں‌ کراچی سے آئے اور ان کو وہاں مڈایسٹ ہسپتال میں‌لے گئے۔ لیکن وہ نہیں‌ بچے۔ ایکسیڈنٹ کے ایک مہینے کے بعد انتقال کرگئے۔ میں ‌6 سال کی تھی اور سب سے چھوٹی بہن 4 مہینے کی۔ ہمارے رشتہ دار، اڑوس پڑوس کے لوگ اور دوست وغیرہ سب نے آہستہ آہستہ فاصلہ اختیار کیا۔ سب کے لئیے اپنی ہی زندگی گزارنا اور اپنے بچے پالنا ہی اتنا مشکل ہے کہ دوسروں‌ کے کون پال سکتا ہے۔ اس زمانے میں‌ ایسا رواج تھا کہ لڑکی پیدا ہوتے ہی ایک صندوق میں‌ سامان جمع کرنا شروع کرتے تھے تاکہ اس کے ساتھ اس کی شادی کی جا سکے۔ اگر کوئی کبھی میری امی سے پوچھتا تھا کہ آپ نے کیا جمع کرلیا ہے تو میری امی کہتی تھیں، میں اپنی بیٹیوں کو کالج بھیجوں‌ گی۔ خود ان کی تعلیم صرف 11 جماعت تک تھی لیکن انہوں‌نے اپنے بھائیوں‌ کی مثال ہمارے سامنے رکھی جو اپنی اپنی زندگی میں‌اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب تھے۔

جب میں‌میڈیکل کالج میں‌ گئی تو لوگ میری امی سے کہتے تھے کہ ہاسٹل میں ‌تو بہت بری لڑکیاں رہتی ہیں، آپ کیسے اپنی بیٹی کو وہاں‌بھیج رہی ہیں؟ کچھ کہتے کیا بیٹیوں سے نوکری کرواؤ گی؟ جتنے منہ اتنے سوال۔ ایک دفعہ میرا ایک کزن کراچی سے آیا ہوا تھا۔ وہ میری امی کا بہت لاڈلا تھا۔ گود میں ‌سر رکھ کر کہا کہ آپ گڑیا کا کراچی میں‌داخلہ کرا دیں‌ تو میں ‌اس پر نظر رکھوں‌ گا۔ میری امی کو غصہ آیا، انہوں‌نے گود میں ‌سے اس کا سر نکالا اور گرم ہوکر بولیں‌، اگر مجھے اپنی بیٹی پر اعتماد ہوگا تو میں ‌اس کو بھیجوں گی، اگر نہیں ‌ہو گا تو نہیں، تم کون ہوتے ہو اس پر نظر رکھنے والے؟ یہ سن کر وہ آنسوؤں‌ سے رونے لگا۔ ہماری عمر برابر ہے۔ وہ پڑھائی میں‌ اچھا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ کے پاس پیسے تھے اور انہوں‌ نے کافی پرائویٹ کالجوں‌ میں‌ اور ادھر ادھر پیسہ کھپایا لیکن وہ ہر جگہ سے ناکام ہو کر واپس آگیا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس کو میری مدد کی ضرورت پڑ گئی۔ جب میں‌ اس کے لئیے اسپانسرشپ کے پیپر بھر کر سائن کررہی تھی تو میرے ذہن میں‌ یہ یاد ابھری جب وہ میرے راستے میں‌ روڑے اٹکانے کی کوشش میں‌ لگا ہوا تھا۔ بے وقوف انسان! اگر میں‌ گھر میں‌ ہی بیٹھی رہ جاتی، پڑھائی نہ کرتی، جاب نہ کرتی اور بارہ بچے بھی پیدا کرتی تو آج نہ یہ نوکری ہوتی کہ ٹیکس کے پیپر ہوتے اور نہ ہی وہ امریکہ آ سکتا تھا۔ میں‌ نے کچھ نہیں کہا اسے اور اس کی مدد کی۔ مستقبل کا، زندگی کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔

ہمارے پچھلے ملک پاکستان میں‌ لوگ ہزاروں‌ لاکھوں ‌روپیہ خرچ کر کے شادیاں کرتے تھے اور ہمیں جتاتے بھی تھے کہ آپ لوگ بھی ایسا کریں۔ میں‌نے حساب لگایا کہ مہنگی شادی کرنے میں ‌اور سارے یو ایس ایم ایل ای امتحان دینے میں‌برابر پیسے خرچ ہوں‌ گے اور میں‌نے اپنے لئیے امتحانوں ‌پر پیسہ خرچ کرنے کو فوقیت دی۔ پھر نذیر نے یا انکی فیملی نے مانگا ہی نہیں جہیز۔ وہ لوگ بلوچ تھے، ان کے ہاں‌ لڑکی پیسوں‌ میں‌ دی جاتی ہے اور ہمارے مہاجروں‌ میں‌ لڑکی جہیز کے ساتھ ہی ٹھکانے لگائی جاتی ہے تو ہم دونوں‌ کی ہی اس مصیبت سے جان چھوٹ ‌گئی۔ نہ ہم نے ان سے پیسے مانگے نہ انہوں‌ نے ہم سے جہیز مانگا۔ اب ہم جہاں‌ پر آگئے ہیں اس کیا کیا ڈھول بجانا لیکن آج میرے پاس اس سے کہیں ‌زیادہ پیسے ہیں۔ پیسوں کا کیا ہے۔ خزانہ تو دماغ میں‌ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روز ایک نئی جگہ سے ای میل آتی ہے کہ آپ ہمارے ہاں‌ نوکری کر لیں۔ وہ اس نوکری سے زیادہ آفر کرتے ہیں۔ لیکن پیسے سب کچھ نہیں‌ہوتے۔ میں‌ اس بات کی بہت بڑی حامی ہوں‌ کہ لڑکیوں‌کی تعلیم پر زیادہ انوسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سامان وہ اپنے لئیے بعد میں ‌خود بھی خرید سکتی ہیں۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments