ایسے پارساؤں سے اللہ بچائے


\"Obaidullahوہ ایک انسان تھی جسے پارسائی کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس کے گناہ بھی ایسے نہ تھے کہ اس سے انسانیت کی قبا چھین لیں۔ کیونکہ اس نے کبھی کوئی درندگی نہ کی تھی۔ نہ اس نے کسی کو قتل کر کے اس کے سر سے فٹبال کھیلا تھا۔ نہ اس نے کوئی خودکش بمبار تیار کیا تھا۔ نہ کسی خون خرابے کو موجب ثواب قرار دیا تھا۔

جہاں لکھا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے وہاں کسی گناہگار یا بے غیرت کی تخصیص نہیں۔ ریاست میں کسی ایک فرد کا کسی دوسرے کو قتل کردینا فساد کہا گیا ہے۔ وہاں بھی کسی مذہبیت کا کوئی سوال نہیں۔ تو پھر پارساؤں کو کس نے یہ اختیار دے دیا کہ اول تو اس بناء پر قتل کریں کہ مقتول ان سے زیادہ گناہگار ہے۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کیسے کرلیا کہ خدا کی نظر میں وہ پارسا ہیں اور مقتول زیادہ گناہگار۔ حالانکہ خدا تو ایک طوائف کو محض اس لئے جنتی کردیتا ہے کہ اس نے ایک کنوئیں سے پانی نکال کر ایک پیاسے کتے کو پلایا تھا۔ اور یہ چلے ہیں اپنی پارسائی کے گھمنڈ خدا بن کر گناہگاروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے۔

پھر ایک ناحق قتل ہوگیا۔ جرم انسانی معاشرے کے ساتھ جڑا ہے۔ تکلیف بھی ہوئی۔ مگر اس سے زیادہ دکھ اس بات کا کہ ایک انسان کے قتل کو جائز قرار دیا جارہا ہے۔ کیوں؟ کیا محض اس لئے کہ ہم پارساؤں کا ایک ویسا ہی ہجوم ہیں جو اس طوائف کو سنگسار کرنے چلا تھا جسے حضرت عیسیٰ نے بچایا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہیں موقع مل گیا تھا اور ہمیں موقع نہیں ملا۔ اس لئے ہم کمزور ایمان کے تحت دل ہی دل میں اس قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور اس کے حق میں فتوے دے کر قصوروار مقتول کو ٹھہراتے ہیں کیونکہ وہ ایک گناہگار عورت تھی۔ اور اس کا بھائی گویا اسے سزا دینے کے لئے مقرر کردیا گیا تھا۔  یا شاید یہ وہ لوگ ہیں جنہیں گناہگار کے قتل کو جواز فراہم کرکے اپنی پارسائی ثابت کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ کیونکہ شاید خود اس قابل نہیں کہ اپنے عملوں سے پارسا بن سکیں اس لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کے گناہوں کے سر پر پارسا بن جاؤ۔ اور پھر تحقیر سے ان گناہگاروں کو دھتکارو اور پھٹکارو جن سے وہ گناہ ہوئے جنہیں تمہیں کرنے کا موقع نہ مل سکا اس لئے تم بچ گئے۔ یا موقع تو مل گیا اور گناہ کر بھی لیا مگر رات کے اندھیرے میں کسی کو پتہ ہی چلنے نہ دیا کہ تم نے بھی کوئی گناہ کیا ہے۔ اور نہیں تو محض اس لئے بچ گئے کہ تم مرد ہو۔ اور بچپن سے تمہاری گھٹی میں پڑا ہے کہ مرد جو چاہے کرے وہ تو مرد ہے۔ اس کے دامن پر بھلا اس قسم کے گناہ کیا دھبہ لگائیں گے۔ یہ پاکی داماں تو صرف عورت ذات سے مخصوص ہے۔ اس لئے تختہ مشق بھی وہی ٹھہرے گی خصوصاً اگر وہ تمہاری اپنی ہی بہن، ماں یا بیٹی ہے۔ اور پھر تم اسے قتل کرکے اپنی گردن میں اپنی پارسائی کا ایک موٹا سا سریا دے کر اسے مزید اونچا کرو گے اور معاشرے کے سامنے مزید سینہ تان کر کہو گے۔ دیکھا نا مار دیا، اپنی ہونے کے باوجود مار دیا۔ یہ ہے ہماری پارسائی کی معراج۔

یااللہ ہمیں ان پارساؤں اور انکے گھمنڈ سے بچا جواپنی پارسائی کے زعم میں خون بھی کرتے ہیں تو اسے اپنی پارسائی قرار دیتے ہیں۔ جو خود کو کم گناہگار اور دوسروں کو زیادہ گناہگار سمجھتے ہیں۔ اور اس بنیاد پر انکی زندگیوں کے فیصلے کرنا بھی اپنی پارسائی کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ جو خدا کے نام پر خود کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ جو آخرت کے فیصلے اسی دنیا میں کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اور وہی لوگ ہیں جو کبھی حضرت عیسیؑ کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ تو کبھی اسی پارسائی کے زعم میں سقراط کو زہر کا پیالہ پلا دیتے ہیں۔ اور کبھی اسی دستارو جبہ کی طاقت کے نشے میں منصور کے انالحق کو کفر قرار دے کر اسے تختہ دار پر چڑھا دیتے ہیں۔ جتنی ان میں طاقت ہوتی ہے اتنا ہی ان کی غیرت پرجوش اورعقل کمزور ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments